سوال ایک غریب بلوچ کا

Loading

سدھیر بلوچ -کولوائی
(ایک شہید چروائے کا بیٹا ،جس کا بزرگ بوڑھا باپ دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوا)

شام کے وقت موبائل کچھ دن وقفے کے بعد جوں ہی کھولا تو اسکرین پر صرف مزمتی بیانات کی بھرمار تھی، فیس بک اسکرول کرتا گیا تو ڈاکٹر مالک صاحب ہنگامی پریس کانفرس میں سانحہ ڈھنک پر خوب تیور رکھ بیٹھے ہوے تھے،آواز کی ٹون شدت کے ساتھ انتہا پہ تھی ۔ ملزموں کی گرفتاری اور سخت سزا کانفرس کے متن اور اولذکر تھے۔آئین اور قانون کو بھی زیر بحث لا رہے تھے کہیں کہیں اس عمل کو بلوچ کلچر اور تشخص پر حملہ قرار دے رہے تھے ، کسی نہ کسی طرح اس عمل کو ریاستی اداروں سے بھی منسوب کرنے کی کوشش کررہے تھے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ان مندرجات پر مباحث کے بعد میرے عمیق مشاہدے سے پتا نہیں کیوں مجھے ان کی راہ عمل سے دروغ گوئی، موقع پرستی اور دوغلا پن کی بو آئی۔ میں کچھ دیر حیران سا رہا ۔۔۔۔ سوچوں کی وادی سے نکل کر جب پھر میں نے فیس بک نیچے اسکرول کیا تو بی این پی کے کچھ رہنما بھی خوب اس عمل کو غیر انسانی عمل کہہ رہے تھے جو حقیت میں ہے بھی غیر انسانی فعل ۔ مزید نگاہ ڈالتا گیا تو بزرگ ماما قدیر بھی پیروں کی طرح بلوچ تاریخ کو ہمیں ایسے سمجھا رہے تھے جیسے وہ تاریخ کے استاد ہیں۔ حیرانگی کے مظہر بار بار یہ نکتہ نظر کا دہرانہ تھا کہ ( ریاست کی پشت پناہی پہ یہ ہوا ان کو گرفتار کیا جائے ) اس بزرگ پر میری جگ ہنسائی یہ تھی کہ یہ ان چوروں کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے جو پہلے سے قانون کے شکنجوں میں تھے ،میں حیرانگی کے ساتھ ساتھ پریشان بھی رہا ، پریشان اس لئے تھا کہ سانحہ ڈھنک میں زخمی برمش کی چیخ و پکار میری ضمیر کو بار بار جنھجوڑ رہا تھا،سانحہ ڈھنک میں جن چوروں نے معصوم اور بیگناہ خاتون خانہ کو جس بے رحمی سے شہادت کے عظیم مرتبے پر پہنچایا وہ قابل مذمت اور نہایت ہی افسوس ناک واقعہ ہے جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے کیونکہ بلوچ معاشرے میں ایسے شرمناک عمل کی کسی بھی طرح کوئی گنجائش نہیں مجھے خاتون خانہ کی شہادت اور بچوں کی زخمی ہونے پر بہت رنج و غم ہے اور میں اس بات پر انتہائی ملال بھی ہوں ۔ کچھ باتیں توجہ طلب اور غور و فکر کی ہیں کہ ہمارے نام نہاد قوم پرست لیڈر شپ و دیگر نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیول سوسائٹی جس طرح اس مسئلے کو اچھال کر سیخ پا ہو رہے ہیں کیا ان کے دل میں بلوچ اور بلوچستان کی قدر واقعی اتنی رچی بسی ہے جس طرح وہ واویلا کررہے ہیں۔میں حیران اس لیے تھا کہ میرے والد محترم بھی کچھ مہینے پہلے بے گناہ شہید کئے گئے تھے ، وہ تو چروایا تھا ، پہاڑوں پہ مال مویشی چروا کر پالتا تھا وہ چروایا ہوکر ہم بچوں کو اس قابل بنانے میں کامیاب ہوسکا تھا کہ ہم معاشرے میں اچھے اور برے کی تمیز کرسکیں،وہ خود گرم اور سرد برداشت کرکے ہمیں اس قابل بنا سکے کہ ہم سوچ بچار کرسکیں۔ گزشتہ ساٹھ سالوں سے بکریاں چرانے والے بوڑھے انسان کو جب بی آر اے نے شہید کیا تو ماما قدیر اور ڈاکٹر مالک کیوں خاموش تھے؟؟ کیا ایک چروایا ایک دہقان اور ایک مفلوک الحال مزدور آپ کی نظر میں کوئی غلط کام کرسکے گا ؟؟ کبھی نہیں ، لیکن ماما قدیر اور دیگر نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن میرے والد صاحب کے شہادت پر کیوں خاموش رہے ؟؟ میرے نزدیک سانحہ ڈھنک کو سیاسی عزائم کی آڑ میں اچھالا جارہا ہے کسی کو نہ تو متاثرہ خاندان سے ہمدردی ہے نہ کے بلوچستان اور بلوچوں سے سرروکار !
بس ہر طرف اپنے سلوگن کو ہوا دی جارہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان نام نہاد قوم پرست جماعتوں اور مخالفین نے سانحہ ڈھنک کے شہید ماں کے جنازے میں شرکت کرنا بھی گوارہ نہیں سمجھا!! دوسری طرف معصوم بچی برمش جو ہسپتال میں زیر علاج ہے ،کیا نام نہاد قوم پرست جماعتوں یا نام نہاد انسانی حقوق کے چیمپئن یا ماما قدیر نے ان کی عیادت گوارہ سمجھی یا ان کی مالی امداد ان کی طرف سے کی گئی؟؟نہیں ہرگز نہیں!! یہ صرف میڈیا میں اپنے آپ کو چمکانے میں مصروف عمل ہیں ہر کوئی اپنا الگ دکان سجائے بھیٹا ہے کہ ہمارے گاہک بڑھ جائیں اس میں ماما قدیر سر فہرست ہیں جو ہمیشہ فقط جھولی بھرنے کی خاطر زبان کشی کرتے ہیں ۔ ضلع کیچ سمیت پورے بلوچستان میں ماما قدیر کے حمایت یافتہ غنڈوں نے جو کشت و خون کا بازار گرم کیا ہوا ہے اور تاحال جاری بھی ہے اس میں ہزاروں بلوچ مرد خواتین مخبری کے سرٹیفیکٹ وصول کرکے شہید کئے گئے اور بہت سے آج معذوری اور دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں اس پر کیوں کوئی کچھ نہیں بولتا، کیوں یہاں یہ گنگے بن جاتے ہیں،کیوں ان کے خون کو انصاف کے ترازو پہ نہیں تولا جاتا؟ ؟ براس نے ڈرگ مافیا کے ساتھ مل کر ماما قدیر جیسے زرخریدوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے جو شرمناک کھیل شروع کیا ہوا ہے جس سے بلوچ معاشرہ مفلوج اور تباہی کی جانب گامزن ہے بلوچ کو ان پہاڑی چاپہ مار چوروں نےعلم و ٹیکنالوجی سے دور دکھیلنے کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں ماما قدیر براہ راست شامل ہیں اس پر ڈاکٹر مالک صاحب ،اختر مینگل اور دیگر کی خاموشی تشویشناک بات ہے۔۔۔۔
سانحہ پنجگور و بالگتر جہاں کچھ بے گناہ شہید اور ایک معصوم بچی اسما ء زخمی ہوئی جس کو نام نہاد آزادی پسند کالعدم تنظیم بی آر اے نے قبول کی جو قابل مذمت قابل افسوس اور قابل نفرت ہے لیکن کیوں آپ کے نام نہاد انسانی حقوق کے محافظ خاموش رہے؟؟ کیوں ان کی زبانوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں؟؟ بہت شرم اور افسوس کی بات ہے کہ روزانہ بلوچ علاقوں میں نام نہاد آزادی پسند تنظیم کے ہاتھوں مجبور اور بے کس بلوچ عوام قتل ہو رہے ہیں اور وہ زار و قطار رو کر کہہ رہے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے ہمارے بچوں ، بوڑھوں اور خواتین کو قتل کیا جارہا ہے نام نہاد آزادی پسند بلوچ تنظیموں نے برملا چیخ چیخ کر ان واقعات کی زمہ داریاں بھی قبول کی ہیں لیکن یہ نام نہاد آزادی کے جوشیلے ،ڈاکٹر مالک اینڈ گروپ، بی این پی اور ماما قدیر ایک مذمتی لفظ بھی ان خواتین کے حق میں نہیں بول سکے !! ماما قدیر جو غیر مصدقہ معلومات پھیلانے میں ماہر اور چست کھلاڑی مانے جاتے ہیں ساتھ ساتھ ڈاکٹر مالک اور سانحہ ڈھنک پر شور مچانے والوں سے گلے کے ساتھ میرا ایک سیدھا سادہ عام الفاظ میں ایک سوال ۔
پچھلے ایک مہینے کے اندر پنجگور، کولواہ اور بالگتر میں متعدد خواتین ان درندوں کے سفاک ہاتھوں سے شہید ہوکر جان سے گئے ہیں، بیرونٹ میں ستر سالہ ضعیف بزرگ خاتون ان کے ھاتھوں شہید ھوئیں، ماں کو دو بیٹوں سمیت اغواء کیا گیا، جن کو اوپن میڈیا میں فخر سے ماما کی حمایت یافتہ غنڈوں نے چلا چلا کر قبول بھی کیا وہاں کیوں مزمتی بیانات اور پریس کانفرنس نہیں ہوئی؟؟؟؟؟ کیا یہ اخلاقی گراوٹ کی انتہا نہیں ؟؟کیا وہ انسان اور مسلمان نہیں تھے ؟؟ کیا وہ ایک خدا کو ماننے والے نہیں تھے؟؟ جی بلکل تھے ، مگر کھیل ہے سیاست کا ،کھیل ہے پیسے کا ،کھیل ہے عالمی دشمن کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا !!
میرے خیال میں سانحہ ڈھنک بلوچستان میں وہ واحد واقعہ ہے جن کے ملزم گھنٹوں میں پولیس اور انٹیلیجنس اداروں کی مدد سے قانون کے شکنجوں میں آئے مگر اب کی چیخ و پکار اور الزام تراشی اور اپنی دانست میں طنز اور رد عمل سمجھ سے بالاتر ہے !!!! میرے والد سمیت دیگر بے قصور شہیدوں کے لواحقین یک زبان ہو کر خاموشی کی وجوہات پوچھ رہی ہیں ؟؟؟ قوم پرست ہو کر خاموش ہونا کہیں ان فاشسٹ سرمچاروں سے خاموش حمایت کی طرف اشارہ تو نہیں؟؟؟ ان کی خاموشی اور زبان بندی ان سے مبینہ تعلقات استوار کرنے کی مجبوری تو نہیں؟؟ ان کی یہ من چاہی قوم پرستی کی تشریع سے بالکل منکر ہے۔ ماما قدیر بین الاقوامی ایجنڈے کی تکمیل ،ہندوستان سے وابستہ مفادات کے پیش نظر اور ڈالروں میں پھلنے والے کو میرے معصوم والد کی شہادت کا دکھ کیوں کبھی نہیں ہوا ؟؟ کیوں اس نے کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا ؟؟ بہر کیف ان کی شرمناک رویے سے پتہ چلتا ہے کہ اصل قاتل یہ چند پہاڑی خونخوار نہیں بلکہ ماما قدیر ،ڈاکٹر مالک اور اختر مینگل جیسے خاموش حمایتی ہیں جن کے خاموشی سے ان کی منشور و ایجنڈے اور منبع و ماخذ کی آبیاری ہو رہی ہے اور بلوچستان میں آج جس انارکی کا دور دورہ ہے وہ ان دوغلا پالیسی رکھنے والے پارٹیوں کی وجہ سے ہے ۔بلوچ کو ان جیسے شاطر لوگوں نے اس نہج پہ پہنچا کر طشت از بام کیا ہوا ہے۔ خدارا ماما قدیر اور نام نہاد بلوچ قوم پرست جماعتیں مجھ جیسے یتیم پر رحم کریں ۔۔۔۔۔۔!
یہ سب واقعات نام نہاد آزادی پسندوں کے چہرے پر وہ بد نما داغ ہیں جو دھونے سے بھی کھبی مٹ نہیں سکتے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں