حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے ولی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی اور امام ہیں۔ قرآن پاک میں ان کی تعریف میں بہت سی آیات ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف میں بہت سی احادیث کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ حضرت علیؓ پر ہر مسلمان کا ایمان ہے۔ حضرت علی کی ولادت 13 رجب کو خانہ کعبہ میں ہوئی۔ اس نے ساری زندگی پیغمبر اسلام (ص) کی مدد کی اور اسلام کی تمام جنگوں میں ان کے شانہ بشانہ رہے اور ان سب میں فاتح بھی رہے۔ اللہ کے حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مولا قرار دیا اور امیر المومنین کا خطاب دیا۔ یہ لقب صرف حضرت علی کا ہے۔ حضرت علیؓ کی عقیدت، سخاوت، شجاعت، شجاعت اور کردار میں کوئی ثانی نہیں۔ ان کی خوبیاں بنی نوع انسان کے لیے ایک مثال ہیں اور ان کے اظہار میں کوئی لفظ نہیں ملتا۔ حضرت علی (ع) کو زہر آلود تلوار سے شہید کیا گیا 19 رمضان 40 ہجری کو مولا علی نماز فجر کے وقت سے چند لمحے قبل کوفہ کی مسجد میں تشریف لے گئے۔ مولا علی نے نماز شروع کی اور جب سجدے میں گئے تو ابن ملجم نے ان کے سر پر زہر آلود تلوار مار کر زخمی کر دیا۔ زخم اس کے سر پر ماتھے تک تھا۔ جب اس پر تلوار لگی تو اس نے کہا: کوفہ کے تمام لوگوں نے مولا کے قتل کا اعلان سنا۔ لوگ مسجد کی طرف بھاگے، امام علی گر پڑے اور اپنے زخم پر زمین سے مٹی ڈال رہے تھے۔ اس کا چہرہ اور داڑھی خون سے بہہ رہی تھی۔ جب علی رضی اللہ عنہ کو تلوار کا نشانہ بنایا گیا تو زمین و آسمان کانپ اٹھے، کالی آندھی اٹھی، مسجد کی دیواریں لرز اٹھیں اور دروازے کھٹکے۔ فرشتے پکارتے ہیں کہ