ہم عورت کے خودمختار ہونے سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟

Loading

زیر نظر تصویر ہمارے معاشرے کے اجتماعی شعور کو منہ چڑا رہی ہے۔ یہ تصویر مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کی ذہنی پسماندگی کی نمائندگی کررہی ہے۔ کیا آدم ذات سے ایک بچی کی کتاب سے محبت برداشت نہیں ہوئی جو اس کا سر قلم کردیا گیا یا ایک باپ کا اپنی بیٹی کو تعلیم کی طرف لے جانے والا ہاتھ برداشت نہیں ہوا جو اس کا بازو قلم کردیا گیا۔ لگتا ہے کسی بت شکن نے آج پھر بازی مار لی۔ پتہ نہیں کب یہ بت شکن اپنے اندر موجود بتوں کو توڑے گے اور ان دھندلے عقیدوں سے جان چھڑاۓ گے۔ جس معاشرے میں لوگ اندھیروں کے عادی ہوجاۓ وہاں شمع جلانے والا زہر ہی لگے گا۔

زمانہ جاہلیت میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم تھی لیکن اب اس زمانہ شعور میں بچیوں کے بنیادی حقوق، خواہشیں اور آزادی درگور کرنے کی رسم ہے۔ اب اُن کو زندہ دفن تو نہیں کیا جاتا لیکن بچیوں کو اُن کی مرضی سے جینے کے حق کو اپنی انا کی قبر میں ضرور دفن کیا جاتا ہے۔ ہم عورت کی خود مختاری سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟ ہم توعزت بھی اس عورت کو دیتے ہیں جن سے ہمارا کوئی خونی رشتہ ہو لیکن دوسری عورت کو ہم عورت نہیں سمجھتے۔ سمجھے بھی کیسے جب ہمیں پڑھایا ہی یہ جاتا ہو عورت ایک فتنہ ہے۔ جو بھی عورت بسلسلہ تعلیم یا روزگار یا کسی اور حوالے سے گھر سے باہر نکلے وہ تو ہمارے لیے ایک جنسی چیز سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتی۔ اس کی ذات پر ہم کیچڑ بھی اچھالیں  گے اور اسے گندے گندے القابات سے بھی نوازیں  گے۔ اپنے حلقہ احباب میں اس کے جسمانی خدوخال پر بھی بات کریں گے۔ بعض لوگ تو آوازیں لگاۓ گے۔ ہم میں سے بعض اس قبیح فعل کو جائز بھی مانتے ہیں اور تاویل یہ دیں  گے اس نے گھر کی چار دیواری کیوں چھوڑی۔ شریف عورتیں تو گھر سے باہر نہیں نکلتی۔۔

کیونکہ یہ گھر سے باہر ہے تو شریف کا ٹیگ تو ویسے ہی اس عورت سے چھن جاتا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے لوگوں تک کارویہ یہ ہے۔ اسے تعلیمی اداروں اور کام کرنے والی جگہوں پر صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آخر ہم کیوں بھول جاتے ہیں یہ ہی رویہ ہمارے گھر کی عورتوں کے بارے میں بھی دوسرے لوگ اپناتے ہوں گے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہوگی۔ ہماری منافقت کی حد تو یہ ہے کہ ہمیں عورت کی تعلیم پر بھی اعتراض ہے لیکن اپنی گھر کی عورت کے علاج کے لیے چاہیے بھی لیڈی ڈاکٹر۔ پھر بعض لوگ یہ بھی تاویل دیتے ہیں کہ عورت خود اپنی خودمختاری کا سودا کرتی ہے۔

دیکھے ہر سال کتنی لڑکیاں پروفیشنل ڈگریاں کرتی ہیں  لیکن ان کا مقصد متعلقہ شعبوں میں کام کرنے کی بجائے اچھا رشتہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ رویہ بھی ہمارے معاشرتی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ ایک پرندے کو جب خاصے لمبے عرصے تک پنجرے میں قید رکھا جاتا ہے اور پھر اسے آزاد چھوڑا بھی جائے تو واپس مڑ کر اس پنجرے کی طرف آجاتا ہے۔ اسی طرح عورت کا یہ رویہ بھی ہمارے سماج کی پابندیوں کا نتیجہ ہے۔ اسے ناقص العقل اور کمزور کہہ کہہ کر اتنا پکا کر دیا ہے وہ اب یہ ہی سمجھتی ہے کہ اس میں ہی کوئی خامی ہے۔ ہمیں عورت کے بارے میں اِس سماج میں مجموعی طور پر پنپنے والے استحصالی رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ عورت کو بھی اپنی صلاحیت منوانے کے لیے ایک عام مرد کی طرح برابر مواقع میسر آنے چاہیے۔ تب ہی اس خزاں زدہ دھرتی پر بہار کی کوئی کونپل پھوٹے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں