ہم بس چائلڈ لیبر ڈے مناتے ہیں،بچے آج بھی کچرے سے چن کے روٹی کھاتے ہیں

Loading

چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن، یہ ہر سال 12 جون کو منایا جاتا ہے۔ نابالغوں کی مزدوری کو روکنے کے لئے بین الاقوامی تنظیموں کے اقدامات کے باوجود ، دنیا بھر میں لاکھوں بچے موجود ہیں ، جو آج کل ، مزدوری کے استحصال کا شکار ہیں۔

اپنی عمر ، سخت گھنٹوں اور ناقص حالات میں نامناسب ملازمتوں کی وجہ سے ، یہ نابالغ بچپنا بکھرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کے بڑھتے ہوئے خوش فہمیوں اور خوشی کو بکھرتے رہتے ہیں۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے پایا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں لڑکے اور لڑکیاں شجرکاری پر کام کرتے ہیں ، لیکن گھریلو خدمت ، ٹیکسٹائل ورکشاپس ، کھانے پینے کے اسٹال یا جسم فروشی جیسی دیگر سرگرمیوں کو بھی ایندھن سے دوچار کیا جاتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھی چائلڈ لیبر کے خاتمے کا خصوصی دن منایا جاتا  ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد  چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرنا اور بچوں کو تعلیم کے حصول کے مساوی حقوق دلانا ہیں۔

مزید پڑھیں: ننھے معصوم بچوں کا عالمی دن اور تلخ حقیقت

 بچوں سے مشقت نہ لینے کا دن منانے کا آغاز 1974 سے ہوا تھا۔ اس دن سے عوام  میں بچوں کے حقوق کے متعلق شعور بیدار کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے 170 ممالک میں ہرسال 12 جون کو بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا اہتمام اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز ایمرجنسی فنڈز کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

ہر سال مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں سمیت بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، مذاکرے اور ریلیوں کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں پہلی بار چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن 2002 میں منایا گیا۔

آئین کے آرٹیکل گیارہ کے تحت 14 سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے، کان یا دیگرخطرناک مقام  پرملازمت کے لیے نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

چائلڈ لیبر سے نمنٹے کے لیے پاکستان میں کئی قوانین بنائے گئے ہیں جن میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991، ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995، مائنز ایکٹ 1923 اور فیکٹریز ایکٹ 1934 شامل ہیں۔

آئی ایل او کی رپورٹ

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) اور یونیسیف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق COVID-19 کے اثرات کی وجہ سے دنیا بھر میں چائلڈ لیبرکی تعداد 160 ملین ہوگئی ہے جو گذشتہ چار سالوں میں 8.4 ملین اضافے کو ظاہر کرتی ہے۔ 14 جون کو چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن سے قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ گزشتہ 20 سالوں کے دوران پہلی بار چائلڈ لیبر کے خاتمے کی کوششوں میں پیشرفت تعطل کا شکار ہوئی ہے۔ 2000 سے 2016 کے درمیان چائلڈ لیبر میں 94 ملین کمی واقع ہوئی تھی۔

اس رپورٹ میں چائلڈ لیبر میں 5 سے 11 سال کی عمر کے بچوں کی تعداد میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کی گئی ہے جو اب کل عالمی تعداد میں نصف سے زیادہ ہیں۔

 خطرناک کام میں 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی 2016 کے بعد سے تعداد 6.5 ملین سے بڑھ کر 79 ملین ہوگئی ہے۔ زراعت کے شعبے میں چائلڈ لیبرکی تعداد 70 فیصد(112 ملین)، خدمات میں 20 فیصد (31.4 ملین) اور صنعت میں 10 فیصد (16.5 ملین) ہے۔ 5 سے 11 سال کی عمر کے تقریبا 28 فیصد اور 12 سے 14 سال کی عمر کے 35 فیصد بچے چائلڈ لیبر کے باعث اسکول سے باہر ہیں۔

 ہر عمر کے بچوں میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چائلڈ لیبر زیادہ ہوتی ہے۔ جب گھر میں ہونے والے کاموں کو ہر ہفتے 21 گھنٹوں یا اس سے زیادہ انجام دیا جاتا ہے تو بچوں میں مزدوری کے تناسب میں اضافہ ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں چائلڈ لیبر(14 فیصد) کا پھیلاؤ شہری علاقوں (5 فیصد) کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔

ملک میں آج بھی لاکھوں بچے تعلیم ،صحت اور بنیادی ضروریاتی زندگی سے محروم ہیں ہم بچوں کا دن تو منا لیتے ہیں لیکن کیا کبھی ان لاکھوں بچوں سے پوچھا ہے جو دو وقت کی روٹی کی خاطر گھروں سے باہر مزدوری کرتے ہیں اور لوگوں کی جانب سے سخت الفاظ سنتے ہیں، کیا انھیں اپنے اس دن کی خبر بھی ہے َ؟

آج بھی چائلڈ لیبر ڈے سے بے خبر دنیا کے کروڑوں معصوم بچے انتہائی خطرناک ماحول میں فیکٹریوں میں مزدوری کرتے، گاڑیاں دھوتے، بھٹہ پہ اینٹیں بناتے، چاقو چھری تیز کرتے، جوتے پالش کرتے، کھیتوں میں مزدوری کرتے اور کوڑے کے ڈھیر سے خوراک چنتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں