خشک گوشت
گوشت کو بغیر فریج یا فریزر کے محفوظ کرنے کا قدیم طریقہ
لوگوں کے فریج اور ڈیپ فریزرز گوشت سے ابلے پڑ رہے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جن لوگوں کو ریفریجریٹرز کی سہولت دستیاب نہیں یا وہ دور دراز علاقے جہاں بجلی تک دستیاب نہیں وہ لوگ گوشت کو لمبے عرصے کے لئے کیسے محفوظ کرتے ہیں؟ جس طرح مچھلی کو خشک کیا جاتا ہے اسی طرح گوشت کو بھی خشک کیا جاتا ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں گوشت کو خشک کرکے محفوظ کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں اور اس کے مقامی طور پر مختلف نام ہیں۔میں نے کراچی میں باگڑی لوگوں کو اس طرح گوشت خشک کرتے پہلی بار دیکھا تھا۔ یہ باگڑی لوگوں کی خواتین اور بچے تو دن بھر بھیک مانگتے ہیں۔ جبکہ ان کے مرد چھوٹے موٹے کام یا سبزی پھلوں کا ٹھیلا یا مچھلی وغیرہ فروخت کرکے چار پیسے کمالیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر آبادی سے باہر میدانی علاقے یا پہاڑی علاقے میں اپنی جُھگیاں ڈالتے ہیں جہاں ان کو صرف رات گزارنی ہوتی ہے۔ کافی عرصہ پہلے کراچی یونیورسٹی کے مقابل موجود اونچی بنجر پہاڑی ٹیلوں پر ان کے جھونپڑے اور جُھگیاں موجود تھیں۔ یہاں میں نے بقرعید کے دنوں میں تاروں اور الگنیوں پر گوشت کے لمبے لمبے پتلے پارچے سوکھتے دیکھے تھے۔ ان کے بچے اور عورتیں بقرعید کے تین دن ہر قربانی والی جگہ گویا گوشت سونگھتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں اور تھیلے بھر بھر کر گوشت اکٹھا کرکے لاتے ہیں۔ یہ ایک گھرانہ بقرعید کے تین دنوں میں پچاس سے ساٹھ کلو تک گوشت اکٹھا کرلیتا ہے۔ گوشت کو ھڈیوں سے الگ کرکے نمک ڈال کر ابال لیا جاتا ہے اور پھر اس کے پارچے کرکے ستلی میں پرو کر تاروں پر لٹکا کر خشک کرلیا جاتا ہے۔ جو گوشت ھڈیوں پر لگا رہ جاتا ہے یہ اس کو بھی چارپائیوں وغیرہ پر رکھ پھیلا کر خشک کرلیتے ہیں۔ یہ جمع شدہ گوشت لمبا عرصہ چلتا ہے۔تباھگ یا لاندیبلوچستان میں جن وگوں کو باہر تازہ گوشت دستیاب نہیں وہ وہیں پہ کسی دیہی علاقے یا پاکستان میں گوشت کو نمکین کر کے مہینوں استعمال کرسکتے ہیں جس کو بلوچی زبان میں”تباھگ”اور اردو میں آپ نمکین گوشت کہہ سکتے ہیں – اسے لاندی بھی کہا جاتا ہے-بکرے یا دنبے کے کئی بڑے ٹکڑے کرکے ابال کر پانی تھوڑا سا خشک کر کے نمک اور انار دانہ موٹا موٹا کوٹ کر مل دیتے ہیں پھر صحن میں ایک رسی میں پرو کر ہلکا کپڑا اوپر رکھ کر دھوپ میں خشک کردیتے ہیں کئی دن بعد جب یہ مکمل خشک ہوجاتا ہے تو ڈبے میں رکھ کر سرد علاقوں میں تو بغیر فریج کے اور گرم علاقوں میں فریج میں رکھ دیتے ہیں یہ کھٹا اور نمکین سا ذائقہ دار پلاؤ بنا كر کھاتے ہیں – کچھ لوگ ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان سے تباھگ بطور سوغات منگواتے ہیں۔ تباھگ دال اور چاول کے ساتھ کھایا جاتا ہے، لیکن زیادہ تر لوگ “تباھگ” کو دال کے ساتھ کھانے کا شوق رکھتے ہیں۔سرائيکی وسیب ، چولستان میں اور خاص طور یہاں کے بلوچ خاندانوں میں گوشت کو نمک اور ہلدی لگا کر ہلکی آگ پر اس طرح پکایا جاتا کہ اس میں پانی مکمل خشک ہو جاۓ۔ بعد میں اسے دھاگہ پرو کر خشک کر کے محفوظ کیا جاتا اسے گوشت کو سُلکانا (سُلگانا) کہتے ہیں۔اس خشک گوشت کے ساتھ خشک پالک ٗخشک مولیٗ خشک شلجم ٗسوہانجنے کے خشک پھولوں یا کسی دوسری خشک سبزی کو پکایا جاتا ہے۔پٹھان کلچر میں دنبے کے گوشت کو سکھا کر سردیوں میں جس علاقے میں برف پڑتی ہو وہاں بنایا جاتا ہے دنبے سے بال صاف کر کے اسکن رہنے دیتے ذبح کرنے کے بعد یہ کام کیا جاتا ہے۔ پھر آگ لگا کر آگ پر ثابت دنبہ سینکا جاتا ہے اس کے بعد دھو کر اچھے سے اس کے بڑے بڑے ٹکڑے کاٹ کر رسی میں پرو کر نمک کے ساتھ سکھایا جاتا خشک ہوا کے ساتھ یہ گوشت سوکھ جاتا کچھ لوگ ژوب بلوچستان میں لال مرچ بھی لگاتے نمک کے ساتھ یہ دو ہفتے میں تیار ہوتا ہے یا تین ہفتے میں۔ یہ پورا سال چل جاتا ہے۔ اگر گرم علاقے میں فریزر میں رکھیں تو بہت مزے کا بنتا ہے۔ یخنی گوشت پلاؤ اس سے بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سادہ یا سبزی کے ساتھ بھی بنایا جاتا ہے۔ کبابحیدراباد دکن میں گو بارہ مہینے تازہ گوشت کی کمی نہیں ہے لیکن یہاں خشک گوشت بطور اسپیشل ڈش کے رکھا جاتا ہے۔ گوشت کے لمبے لمبے پتلے کترن نما پارچوں کو نمک + سرخ مرچ + ادرک لہسن پیسٹ لگا کر دھوپ میں اتنا خشک کر لیا جاتا ہے کہ یہ سخت پاپڑ جیسی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ جسے “کباب” کہتے ہیں- اس کو ائر ٹائٹ ڈبوں میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ بعد میں اسے دال یا سبزی وغیرہ کے ساتھ الگ سے فرائ کرکے یہ کرارا کرسپی گوشت بطور سائڈ ڈش کے رکھا جاتا ہے۔جرکی. ( Jerky)امریکہ میں اسے جرکی کہتے ہیں جو کہ بہت مقبول ہے یہ جرکی ہر قسم کے گوشت کو مصالحے میں لگا کر ڈی ہائڈریٹ کرکے خشک کردیا جاتا ہے اور پلاسٹک کی ہوابند پیکج میں رکھ کر فروخت کرتے ہیں۔ یہ مہینوں محفوظ رہتی ہے۔ عام طور پر کیمپنگ وغیرہ کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ خوشاب میں ایک عرصہ قبل جب فریج عام پہنچ میں نہیں ہوتے تھے تو،، قربانی پہ بچا ہوا گوشت کڑاہی میں پانی اور نمک ڈال کر خوب پکایا جاتا،، جب پانی خشک ہو جاتا اور گوشت اپنی ہی چربی میں بھنا جاتا تو اس کی بوٹیوں کو کپڑے کی پوٹلیوں میں باندھ کر دھوپ میں لٹکایا جات یوں دھوپ میں اس کی تمام چکنائی پگھل کر نکل جاتی اور یہ خشک گوشت مرتبانوں میں محفوظ کر لیا جاتا جو کہ مہینوں تک قابلِ استعمال رہتا۔ہم بچے لوگ ہر وقت گزرتے ہوئے پوٹلیوں سے نمکین بوٹیاں چرا کر جیبوں میں بھر لیتے اور خوب مزے سے کھاتے،، بچوں کی اس چوری کا سدِباب ایک منفرد ترکیب سے کیا جاتا ۔ گوشت کو پوٹلیوں میں باندھنے کی بجائےمضبوط دھاگے میں گوشت کی بوٹیوں کو پرو کر لٹکا دیا جاتا اور اوپر سے کسی کپڑے سے لپیٹ دیا جاتا،، تاکہ پرندے وغیرہ کی دسترس سے محفوظ رہے-۔نائیجیریا چونکہ افریقہ کے گرم ترین ریگستانی علاقے پہ مشتمل ہے، تو وہاں اونٹ عموماً پائے جاتے ہیں،، اونٹ کو ذبح کر کے اس کے گوشت کے بڑے بڑے پارچے بنا کر ریت میں گڑھے کھود کر دبا دیا جاتا ہے،، کچھ دن بعد گوشت سورج کی گرمی اور ریت کی شدید حدت سے خشک ہو کر لکڑی کی مانند ہو جاتا ہے۔ سمجھئے کہ گوشت کی ممی بن جاتی ہے۔ پھر اس خشک گوشت کو کاٹ کر وزن کے حساب سے فروخت کیا جاتا ہے۔گوشت کو لمبے عرصے تک محفوظ کرنے کا طریقہاگر آپ گوشت کو لمبے عرصے تک محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو گوشت کو اچھی طرح دھو لیں پھر کا غذی لیموں نچوڑ کر اس میں پرانا گڑ گھول دیں اور یہ مرکب گوشت پر مل دیں . اس کے بعد لاہوری نمک باریک پیس لیں اور گوشت پر چھڑک دیں اور پھر گرم کوئلے والے خالی چولہے پر باربی کیو کی طرح ھلکی آنچ پرخشک کر لیں . اس کے بعد چند دن دھوپ میں رکھیں۔ یہ گوشت مہینوں خراب نہیں ہو گا .