کیا ان کے ہاتھوں میں قلم اور کاغذ نہیں ہونا چاہئے تھا؟

Loading

دشمن طرح طرح کے ہتکھنڈوں سے بیرون ملک نام نہاد آزادی پسندوں کے ذریعے شر پسندی کروا رہا ہے جس سے بلوچستان کے سادہ لوح لوگ بہکاوے میں آ کر استعمال ہورہے ہیں ۔ اگرچہ ابھی تک دشمنوں کو ان کی خواہش کی مکمل کامیابی نہیں ملی تاہم وہ اپنی منفی نیت اور کوشش میں مسلسل مصروف عمل ہیں۔ کبھی تو وہ براہمداغ کو لیڈر بنا دیتے ہیں، کبھی حیربیار کو عظیم سیاست دان اور کبھی جاوید مینگل کو بلوچوں کی نمائندہ تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عناصر خود کو بلوچوں کا لیڈر کہنے والے ایسے ایجنٹوں کو اْکساتے ہیں۔ انہیں پاکستان کی مخالفت کے بدلے شہرت، دولت اور آزادی کے باغ دکھائے جاتے ہیں اور یہی بیرون ملک مقیم ٹولے بلوچستان میں سلمان حمل جیسے لوگوں کو غلط تربیت اور ریاست کےخلاف بھڑکا کر ان کی غلط ذہن سازی کرتے ہیں ۔سلمان حمل جیسے وسط طبقے کے بہکائے گئے بلوچ ان غلط ہاتھوں میں استعمال ہوکر بیرون ملک ایجنٹوں کے بینک بیلینس بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں ورنہ اس کے علاوہ ان حملہ آوروں کو ذرا برابر کا بھی فائدہ نہیں پہنچا ہوگا!
ان کے آقا تو صرف اِن چند مفاد پرستوں اور شر پسندی کے خواہشمندوں کو تعاون فراہم کرتے ہیں اور ان کی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور پذیرائی کی جاتی ہے۔ ان کی تنظیمیوں کو منظم کرنے کیلئے وہاں بیٹھے عیاش گروپ کیلئے فنڈز کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ سہولیات اور مراعات دی جاتی ہیں اور بھارت جیسے ہمسائے ملک کی طرف سے سرکاری سطح پر کھلم کھلا ان کی تائید تک کی جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تک کہ بھارت کے وزیراعظم مودی جی ان کے حق میں بیانات تک داغ دیتے ہیں ۔
بلوچستان میں استعمال ہونے والے نابالغ علیحدگی پسند ٹولے کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ہم صرف سلمان حمل کی طرح استعمال ہو رہے ہیں۔ ان کو بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ ہم مفت میں اپنی زندگی کا زیاں کر رہے ہیں ان کے جانوں کے زیاں سے نام نہاد بلوچ قوم پرست رہنما دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ اور مراعات کی باضابطہ طلبی کرتے آرہے ہیں ۔
پی سی ہوٹل پر ناکام حملہ ہو ،چینی قونصل خانہ یا پھر کراچی اسٹاک ایکسچینج یہ سب باہر والوں کے کہنے پر بیرون ملک نام نہاد آزادی پسند بلوچ تنظیموں کو فنڈز دے کر یہاں گراونڈ میں سلمان حمل جیسے نوجوانوں کو فدائی اور ذہنوں میں پاکستان کے خلاف زہر بھر کر اشتعال انگیز کارروائیاں کروا کر رسوائی کی موت مروائے گئے۔ مگر میرا ایک سیدھا سادہ سوال ان نابالغ نوجوانوں کےلئے کہ آخر اس بہکے ہوئے ٹولے کو فائدہ کیا پہنچ رہا ہے؟ کیا ان کے ہاتھوں میں قلم اور کاغذ نہیں ہونا چاہئے تھا؟ کیا ان کو عزت و وقار کی زندگی نہیں گزارنا چاہئے تھی؟ کیا ان کو ریاست کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی جنگ نہیں لڑنا چاہئے تھا؟ کیا سلمان حمل،سراج ،تسلیم اور شہزاد کی مائیں اب براھمدغ اور حیربیار مری کو بد دعائیں نہیں دے رہی ہونگی؟ اپنی نجی زندگی کو عالی شان بنانے کےلئے یہ نام نہاد ٹولہ یہاں نوجوان طبقے کی ذہن سازی کرکہ ان کو بھڑکا کر آزادی کے نام پر مروا کر فساد پھیلا رہا ہے تاکہ دشمن کے خوابوں کی تعبیر ہو اور پاکستان معاشی خستہ حالی کا شکار ہو۔ بلوچستان کے محب وطن عوام اپنے دشمنوں کے ان ارادوں اور مزموم عزائم کی راہ میں اڑ جائے اور فقط یہی اْس کی ناکامی ہوگی تاہم سلمان حمل جیسے بہکاوے میں آئے ہوئے لوگوں کےلئے مزید آزمائش کسی طور پر بھی دانشمندی نہیں ہے ۔ کیونکہ اب بیرونی طاقتوں کے ایجنٹ فرسٹریشن کی انتہا پر پہنچ گئے ہیں اب وہ اسی طرح سینکڑوں سلمان حیدر کی زندگیاں اجیرن بناکر خود ہائی فائی اور ماڈرن زندگی گزاریں گے۔
کیا تسلیم بلوچ ، شہزاد بلوچ، سلمان حمل اور سراج کُنگر جیسے جوانوں نے کبھی براھمدغ بگٹی ،حیر بیار مری یا جاوید مینگل سے یہ پوچھنے کی زحمت کی کہ آپ لوگوں کے بچے یورپی ملکوں میں سائنسی علوم حاصل کررہے ہیں اور ہم یہاں آزادی کی لوریاں سن کر قربانی کے بکرے بن رہے ہیں کاش ان جیسے لوگوں نے خود سے یہ سوال کیا ہوتا تو آج ان کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں