کپر کا خوبصورت مگر لاوارث کنٹانی بیچ

Loading

ظریف بلوچ

مجھے نیچر اور ایڈونچر کو قریب سے دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ کیونکہ میں زندگی کو ایک نیچرل ایڈونچر سمجھ کر گزارنے کا خواہاں ہوں۔ بچپن سے دیہاتی ماحول میں رہ کر نیچر اور ایڈونچر کو قریب سے دیکھتے ہوئے سمجھ نہ سکا۔ مگر جوانی کے سفر میں نیچر اور ایڈونچر مقامات دیکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اس سال جب عید کی چھٹیوں میں اپنے آبائی گاؤں کپر جانے کا موقع ملا تو عید منانے سے زیادہ میں نیچرل اور ایڈونچر مقامات کی جستجو میں لگا رہا۔ ویسے بھی مکران کے ساحلی پٹی میں نیچرل اور ایڈونچر مقامات کافی تعداد میں موجود ہیں جو علاقائی، ملکی اور عالمی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ کر لاتے ہیں۔ جبکہ مکران کی ساحلی پٹی میں ایسے بھی نیچرل اور ایڈونچر مقامات موجود ہیں جن کا کھوج لگانا ابھی بھی باقی ہے۔ مجھے نیچر کو قریب سے دیکھنے جبکہ میرے کزن سراج حکیم کو نیچرل اور ایڈونچر مقامات کی عکس بندی کرنے کا شوق ہے۔

گاؤں میں جب بوریت ہوتی ہے تو درختوں کے سائے اور لہلاتی فصلیں بوریت ختم کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ کپر میں موجود ایک ایڈونچر بیچ کے بارے میں جب سراج حکیم نے مجھے بتایا تو اسے قریب سے دیکھنے کا تجسس بڑھا اور اسی لمحے میں نے جانے کے لیے حامی بھر لی۔ ہمیں کپر کے حسین ساحلی پٹی پر موجود ” کنٹانی“ بیچ کو قریب سے دیکھنے اور اس کے بارے میں جستجو اور مذید کھوج لگانے کے لیے جانا تھا۔

کپر مکران کوسٹل ہائی وے پر گوادر اور پسنی کے درمیان میں واقع درجن بھر سے زائد دیہات پر مشتمل ایک ساحلی بستی ہے جہاں لوگوں کی زندگی سمندر سے لازم و ملزوم ہے۔ ” کنٹانی“ بیچ کا سفر کپر سے محض دس سے پندرہ منٹ کی مسافت پر ہے۔ مگر ملک کے دوسرے علاقے سے آنے والے سیاحوں کو یہاں پہنچنے کے لیے مکران کوسٹل ہائی وے پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے پر گوادر یا پسنی کی طرف آتے ہوئے کپر کراس سے ” کنٹانی“ بیچ کا سفر شروع ہوتا ہے۔ کپر کراس سے چھ کلومیٹر پکی سڑک کی مسافت پر ” کنٹانی“ جانے والے روڈ کا سفر شروع ہوتا ہے جو کہ تین کلومیٹر پر مشتمل ایک کچا راستہ ہے۔ گاڑیاں و موٹر بائیک آسانی کے ساتھ جا سکتے ہیں۔

ہم چونکہ کپر سے بذریعہ موٹر بائیک کنٹانی کے حسین بیچ کے نظارے کرنے کے لیے نکل گئے تو ہمیں وہاں پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔

پہاڑوں کے دامن میں واقع کپر کی لمبی ساحلی پٹی میں کئی بیچ اور بھی موجود ہیں۔ مگر کنٹانی بیچ سب سے منفرد ہے۔ اوپر سے یہاں زمین ہموار اور میدان ہی میدان نظر آ رہا تھا۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے دو سو فٹ کے قریب بلند ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہمارے تجسس میں مذید اضافہ ہوا کہ بیچ تک جانے کے لیے دو سو فٹ کے قریب نیچے اترنا ہوگا اور نیچے اترنے کے لیے ایک مضبوط رسی کو زمین کے اوپر سے باندھا گیا تھا۔ ہم رسی کی مدد سے جب بیچ کی طرف جا رہے تھے تو قدرت کے حسین مناظر اور ایڈونچر اس بیچ میں سموئے ہوئے تھے۔

نیچے اترنے کے بعد پہلی نظر میں سیکڑوں سفید کیکڑے اپنے بلوں سے نکل کر سمندر کی طرف جاتے ہوئے نظر آئے۔ پوری ساحلی پٹی میں جگہ جگہ کیکڑوں کے بل نظر آ رہے تھے۔ ایک طویل پہاڑی سلسلے کے نیچے پر موجود ” کنٹانی“ بیچ میں ہمیں کوئی سیاح نظر نہیں آیا جبکہ پلاسٹک کی بوتلیں اور جالوں کے ٹکڑے ہر طرف پڑے ہوئے تھے جو کہ میرین لائف کے لیے خطرے کی علامت ہے۔

کنٹانی بیچ کافی طویل ہے مگر نیچے اترنے کے لیے صرف ایک ہی راستہ ہے جو چار سے پانچ دہائی پہلے مقامی ماہی گیروں نے بنایا تھا۔ سمندر کے حصے میں سیزن مچھلیاں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں اور کئی خاندانوں کا ذریعہ معاش اسی ساحلی پٹی سے وابستہ ہے۔ جبکہ اس بیچ کے قریب ماہی گیر بغیر کشتیوں کے ذریعے شکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ سیزن شروع ہوتے ہی اپنے جال سمندر کے اندر لگاتے ہیں اور صبح سویرے واپس جالوں کی طرف جاتے ہیں۔ جہاں جالوں کے اندر پھنسی ہوئی مچھلیوں کو نکال کر مقامی منڈی میں فروخت کرتے ہیں۔

شکار کی اس قسم کو مقامی زبان میں ” کانڈال“ کہا جاتا ہے۔ جب ہم کنٹانی بیچ پر قدرت کے حسین مناظر اور مست و موج سمندر کی لہروں کو ساحل پر ٹکراتے ہوئے دیکھ رہے تھے تو یہ منظر حسین تھا۔ ساحل پر ایک طویل پہاڑی سلسلہ نظر آتا ہے جب کہ اوپر چڑھائی کے بعد ہموار میدان نظر آتا ہے۔

کنٹانی بیچ کے دلفریب اور حسین مناظر کو قریب سے دیکھنے کے بعد جب ہم رسی کی مدد سے واپس اوپر کی طرف چڑھ رہے تھے تو نیچے کے مناظر حسین مگر راستے میں چھوٹے غار ایڈونچر سے بھرے مناظر پیش کرتے ہیں۔ رسی کے سہارے بڑی مشکل سے ہم اوپر پہنچ گئے تو تھکن سے چور ہوگئے۔ کیونکہ مٹی کے پہاڑ ہونے کی وجہ سے پاؤں کی معمولی پھسلنے سے گرنے کا خدشہ موجود ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں سیڑھیاں بنا کر بیچ تک رسائی کو آسان بنایا جائے کیونکہ رسی کے سہارے نیچے اترنے میں تو خاص دشواری نہیں مگر واپس اوپر چڑھنا خطرے سے خالی نہیں ہوگا۔ یہاں ایسے اقدامات کر کے ٹورازم کو فروغ دیا جا سکتا ہے کیونکہ ایڈونچر سے بھرے اس طرح کے بیچ پوری دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں