قسط نمبر :02
پاکستان میں جتنی بھی غیر ملکی شخصیات آتی ہیں؛ جن میں حالیہ رجب طیب اردگان (ترکی کےصدر)، شی جن پنگ (چائنہ کے صدر) نے پاکستانی پارلیمنٹ سےخطاب کیا انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کلام اقبال سے کیا-اسی طرح عالمی لیڈر؛ جب بھی پاکستان پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہیں اقبال کے کلام سے اپنی بات شروع کرتے ہیں- سوال یہ ہے کہ ڈپلومیٹک زبان میں اس کا کیا مطلب و تعبیر ہےکہ ایک غیر ملکی سفیر اور وفد پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کلامِ اقبال سے کرتا ہے؟
میرے نزدیک ڈپلومیٹک زبان میں اس کی تاویل و تعبیر یہ ہے کہ وہ لیڈر اس قوم کو بتا رہا ہے کہ :
’’ہمیں معلوم ہےکہ آپ نے اپنے نزدیک جو ثقافتی و سیاسی تاریخ میں درجہ بندی بنائی ہیں اُن میں درجۂ اول پر اقبالؒ کا اسم ہے- ہم یہ جانتے ہیں کہ اقبال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اقبا ل نے آپ کو آئیڈیالوجی اور فکر دی، نظریہ اور ملک کا تصور دیا ہے‘‘-
اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جن کے ہاں اقبال پہ بڑا سنجیدہ علمی و تحقیقی کام ہوا ہے-
’’اقبال ز گلوبل رکگنیشن‘‘ ایک الگ موضوع ہےجس کے لئے بہت طویل وقت درکار ہے- میں اس پہ صرف تعارفی الفاظ کہنا چاہتا تھا تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ہم کسی عام آدمی کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسی شخصیت کے تصورات و نظریات کا تذکرہ کر رہے ہیں جس کو دنیا تسلیم کرتی ہے-
اقبال کے تصورِ معیشت پہ روشنی ڈالی جائے تو اقبال کے ذوقِ معاشیات کے متعلق علمی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ عوام میں تعلیمی نصاب کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ اقبالؒ مغرب گئے، وہاں اُنہوں نے سیکھا اور پڑھا، پھر وہاں سے جو سیکھا واپس آ کر یہاں پڑھانا شروع کیا تو وہ اقبال کے معاشی تصورات بن گئے-
آپ کامرس سے ، اکنامکس کی ایک برانچ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کویہ جان کر خوشی اور حیرت ہوگی کہ علامہ اقبال اس خطہ کے وہ پہلے مصنف ہیں جس نے از خود اکنامکس اور اقتصاد پر اُردو زبان میں پہلی کتاب لکھی- جس کا نام ’’علم الاقتصاد‘‘ہے جوکہ 1900ءمیں شائع ہوئی- کچھ عرصہ قبل اس کو دوبارہ شائع کیا گیا ہے-الغرض! اردو زبان میں اکنامکس پہ لکھی گئی یہ پہلی کتاب تھی جو علامہ اقبال نے لکھی تھی-
لہٰذا اقبال نے ویسٹ میں جانے سے پہلے اقتصادیات کا مطالعہ کرنا شروع کیا-حالانکہ اس کتاب میں اقبالؒ کے آئیڈیاز اتنے مشہور نہیں تھے لیکن میرے اپنے لیے حیرت کی بات تھی کہ اقبالؒ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کتاب میں اکنامکس کو ڈسکس کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی تائید کی- اگر آپ اپنے معاشی مسئلہ کوحل کرنا چاہتے ہیں توآپ کو اپنے معاشرتی پہلو پہ غور کرنا پڑےگا- ’’مسدس ِ حالی‘‘ میں الطاف حسین حالی نے بھی اس نقطہ ٔنظر کو سپورٹ کیا ہے – بہرحال یہ اقبال کی تحقیق ہے اور یہ حالی کا نقطہ نظر ہے جس کو ایک حوالہ کے طور پہ بیان کیا گیا ہے-
جاری ہے ۔