قسط نمبر 04
یہ نظم اس قدر حقیقت کی عکاس ہے کہ اس کے اختتام کرتے ہی آپ کو شاعر کی کیفیت محسوس ہوتی ہے-اس کے بعد نظم ’’فرشتوں کا گیت‘‘کی بات کرتے ہیں جس میں فرشتے اللہ تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ :
تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی |
اِسی میں آگے اتنی زوردار ضرب ہے اقبال کی کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ، سرمایہ دارانہ مادیت کے پرخچے اُڑا دیئے اقبال نے :
دانش و دین و علم و فن، بندگیٔ ہوس تمام عشق گرہ کُشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی |
تیسری نظم فرمانِ خُدا ہے اس میں اقبال اظہار کرتے ہیں لینن کی دعا اور فرشتوں کا گیت سُن کے اللہ رب العزت اپنے جلال کا اظہار کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ اقبال کی بڑی خطرناک نظم سمجھی جاتی ہے جوکہ اس خوف سے کافی عرصہ تک سرکاری نشریات پر بند رہی کہ کہیں یہ کسی انقلاب کو لانے کا پیش خیمہ نہ بن جائے-
اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہلا دو گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے کنجشک ِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو سُلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقشِ کُہن تم کو نظر آئے، مِٹا دو جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو |
اقبال نے اپنی ان نظموں کے ذریعےجاگیرداری اور سرمایہ داری نظام پہ بڑی زور دار ضرب لگا ئی ہے- پھر اس کے بعد اقبال کی ایک اہم نظم ’’خضرِ راہ‘‘ ہے جو اقبال کے معاشی تصورات کو سمجھنے کے لئے بڑی ممد و معاون ہے- جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میری خواجہ خضر علیہ السلام سےبرسرِ راہ ملاقات ہوئی تو میں نے خضر علیہ السلام سے پوچھا زندگی کیا ہے؟ سلطنت کیاہے؟ سرمایہ داری کیا ہے؟ خضر علیہ السلام کے جواب کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں کہ :
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری |
قیصری کیا ہے؟ رومن امپائر یعنی بادشاہت کا نظام-اقبال کہتے ہیں جو تم مغرب میں جمہوریت دیکھتے ہو، بنیادی طور پر یہ قیصر ہی کا نظریہ ہے، آمریت ہی کی ایک شکل ہے، اگرتم اسے جھٹلاؤ گے تو مار دیے جاؤ گے- اگر یہ جمہوریت ہے تو اس کو جھٹلانے کا حق ہونا چاہیئے لیکن اگرتم اسےتسلیم نہیں کروگےتو تم ایک غیر مہذّب آدمی کہلاؤ گے جس کو اس زمین پہ زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں دیا جائے گا-
یہ اقبال کاتصورِجمہوریت ہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’دیو ‘‘یعنی بھیانک جن ہے – یہ جن استبداد کا ہے لیکن اُس نے جو لباس پہنا ہواہے وہ جمہوریت کی نیلم پری کا ہے- یعنی دیکھنے میں وہ نیلم پری ہےلیکن اندر سےاس کو کھول کردیکھا جائے تو وہ استبداد کا جن ہے-بقول خضر بزبانِ اقبال :
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر! بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا؟ ہے یہ پیام کائنات! اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مُسکرات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے |
یعنی مزدور طبقہ کے لئے یہ پیغامِ خضر بیان کیا جارہا ہے جو کہ اقبال کی سرمایہ دارانہ نظام پر نہ صرف تنقید تھی بلکہ ایک کاری ضرب تھی-اقبال کی ان نظموں سے اِس تاثر نے جنم لیا کہ اقبال اشتراکیت کےقائل تھے-اس پر اقبال کو اس تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ ’’اقبالؒ تو اُس عہد میں تھے جب مارکسسٹ انقلاب برپا ہو رہے تھے لہٰذا اقبال تو مارکسسٹ تھے اور یہ ساری اشتراکی اپروچ ہےجس کےتحت علامہ اقبال یہ ساری باتیں کررہے ہیں‘‘-
اِنقلاب کے متعلق بھی اقبال کے اشعار پہ سُرخوں نے خوب حاشیے چڑھائے اور اُنہیں اپنے نُقطۂ نظر کے حق میں خوب استعمال کیا- فکرِ اِقبال کے ساتھ یہ المیّہ ہر سمت سے پیش آتا رہا ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے تربیّت یافتہ محققین نے پہلے اقبال کو کافر ثابت کرنے کی کوشش کی، پھر شکست کھانے کے بعد اقبال کی بھر پور ’’طالبانائزیشن‘‘ کی ، انقلابِ ایران کے بعد اقبال کو پاسدارِ انقلاب کے طور پہ پیش کیا گیا، صُوفیوں نے اقبال کو متولّی ثابت کیا، اشتراکیوں نے اقبال کو مارکس کا پیرو کار بتایا-
یہ المیے اپنی جگہ، حسبِ موضوع مَیں آپ کو یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ علامہ اقبال قطعاً مارکسسٹ نہیں تھے – انہوں نے کارل مارکس کو پڑھا اور دیگر فلاسفرز اور ماہرینِ معاشیات سےزیادہ کارل مارکس کا فہم رکھتے تھے- لیکن اس کا يہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ علامہ اقبال کارل ماکس کے قائل تھےیا علامہ اقبال نے کارل ماکس کو بطور اپنے آئیڈیل کے لیا ہے-ہم وہ لمحہ بھول جاتے ہیں جہاں سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت بھی علامہ اقبال کے ہدفِ تنقید پہ ہے-کئی حوالوں سے اقبال ان دونوں کو ایک ہی ٹہنی کے دو بد ذائقہ پھل سمجھتے ہیں-اقبال بتاتے ہیں کہ اشتراکیّت اور سرمایہ داری میں صرف اصطلاحات اور نعروں کے الفاظ کا فرق ہے حقیقت میں یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں- اشتراکیّت اور سرمایہ داری دونوں کا مقصود طاقت کے بل بوتے پہ دوسروں کی دولت چرانا اور ہتھیانا ہے (اُسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آدم )-نعرہ مزدور کا لگایا جائے یا کسی ایمپائر کا؛ یہ معنیٰ نہیں رکھتا۔
جاری ہے