کمیونزم ،کیپٹیلزم ،اسلام ایک تقابلی جائزہ

Loading

قسط نمبر 05

کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجُودِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے مُنحصر
مجلسِ مِلّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

اِن دونوں نے اقوام کو روندا، لوٹا اور برباد کیا ہے ، کمزوروں کی دولت ہتھیائی اور اُن کا استحصال کیا، قتلِ عام کیا، بنی نوعِ انسان کو ذلیل و رُسوا کیا- بقول اقبالؒ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام دونوں مخصوص طبقہ کا تحفظ ہے ، دونوں کا اصل الاصول زر پرستی اور ہوسِ دولت ہے – کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، حقدار سے رقم چھین کر بینک کے ذریعے سرمایہ دار پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہے اسی طرح اقبال کے نزدیک اشتراکی نظام بھی حقدار سے رقم چھین کے مزدور پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہےجس سے حقدار کا حق دونوں ہی چھین کھاتے ہیں – ان دونوں کا نقص اور مرض یہ ہے کہ دونوں انسان کی انسانیت کا احترام سکھانے کی بجائے شکم کی پرورش سکھاتے ہیں – اس لیے ان دونوں میں صفتِ ہوس پرستی کا اُبال اور وبال دیکھتے ہوئے اقبال سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت کو بھی ردّ کرتے ہیں، اس کا ابطال کرتے ہیں -جس کو اقبال نے اپنے کلام میں یوں بیان کیا ہے:

راز دان جزو و کل از خویش نا محرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

یعنی آدم اپنے سرمائےکی دوڑکے پیچھے آدمیت کا قاتل بن چکا ہے اور یہ شعر لوگوں کو تب سمجھ آیا جب’’اسٹالین آف یو ایس ایس آر‘‘نے سنٹرل ایشیاء کے انسانوں جن کی تعداد کچھ کے نزدیک تیس ملین سے زائد ہے؛کے خون سے ندیاں بہادیں- تیس ملین کا مطلب تین کروڑ ہے اس سے زائد انسان سنٹرل ایشیاء میں سٹالین کی ملٹری نے کچلے ہیں جس میں پورا قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان شامل ہے- اس پورے قہر آلودہ ماحول کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب سنٹرل ایشین اور تیموری ترکوں نے ’’یو ایس ایس آر‘‘ کوپلیٹ میں رکھ کر دیا تھا ؟ اور کیوں’’ یو ایس ایس آر‘‘ ان پرقبضہ کرنا چاہتا تھا ؟ کیا اپنے جی ڈی پی، اپنی بینکنگ گروتھ اور معاشی طاقت کے لیےکیا تھا؟ اگر نہیں –! تو پھر اس کے علاوہ کیا وجہ تھی؟

آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

اگر سرمایہ دارانہ نظام اسکندریت ہے تو اشتراکیّت بھی چنگیزیّت ہے ، بلکہ اسٹالن خود چنگیزیّت سے بد تر استعارہ ہے انسانی قتلِ عام کا- اب یہ شعر پڑھیں اقبال کا :

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قُبا چاک

جاوید نامہ میں سیّد جمال الدین افغانی کی زبان سے’’اشتراک و ملوکیّت‘‘ والے حصہ میں جو کچھ اقبال نے کہلوایا ہے وہ بھی اِسی تقابل و موازنہ پہ دالّ ہے کہ ملوکانہ لسّی اور اشتراکی مکھن ایک ہی برتن کے خراب دودھ سے بر آمد ہوئے ہیں-

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس، آدم فریب
زندگی ایں را خروج، آں را خراج
درمیانِ ایں دو سنگ آدم زُجاج
غرق دیدم ہر دو را در آب و گِل
ہر دو را تن روشن و تاریک دِل
جاری ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں