قسط نمبر 07
’اِن دونوں میں رُوح بے قراری اور بے سکونی کا شکار رہتی ہے ، یہ دونوں خُدا کے منکر اور انسانیت کیلئے دھوکہ ہیں- اشتراکیّت کا مقصدِ زندگی ہر چیز میں فساد بپا کرنا ہے جبکہ ملوکیت کا ہر چیز میں ٹیکس وصولنا، اِن دو پتھروں کے درمیان انسان شیشہ کی طرح پِس رہا ہے- میں نے ان دونوں کو مادہ پرستی میں غرق دیکھا ہے ، ان دونوں کا ظاہر روشن جبکہ دِل سیاہ ہیں‘‘ –
اسی طرح ’’پیام مشرق‘‘میں لینن اور قیصر کے درمیان جو مکالمہ ہے اس میں لینن مارکسسٹ اپروچ یعنی اشتراکیت کا نمائندہ ہے اور قیصر روایتی سرمایہ دارانہ اپروچ کا نمائندہ ہے- یہ مکالماتی نظم اقبال کے تصورات کی بھر پور اور بہترین عکّاس ہے –
لینن بڑے فاتحانہ اور متفاخرانہ لہجے میں اپنی بڑائی جتلاتے ہوئے قیصر کو کہتا ہے کہ ہم نے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کو بچا لیا ہے، زارِ روس اور قیصرِ روم کا فریب کچلا جا چکا ہے- مزدوروں نے سرمایہ داروں کی قمیص نوچ ڈالی ہے ، پیرِ کلیسا کی چادر اور شاہوں کی قبا بھی پھاڑ ڈالی ہے –
جسے اُردو میں اقبال نے کہا تھا کہ :
اس سے بڑھ کہ اور کیا فکر و عمل کا انقلاب توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب |
لینن کی گفتگو کے بعد اقبال قیصرکے کردار کو سامنے رکھ کر اشتراکیّت پہ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست! طواف اندر سرشتِ برہمن ہست |
بے جان بتوں کے ناز و عشوہ کا کیا گناہ؟ طواف تو برہمن کی سرشت میں شامل و داخل ہے – اسی جواب میں آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ نئے خُدا تراشنے کا جنون جس کے ذہن میں ہو تو وہ یہی کرتا رہے گا –
دما دم نو خداونداں تراشد کہ بیزار از خدایانِ کہن ہست |
یعنی انسان کی فطرت ہے کہ وہ نئے سے نئے بت تراشتا رہتا ہے-پہلےسرمایہ داری کا بت تھا اب انسان نے اشتراکیت کا بت بھی تراش لیا ہے؛ کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا وہ بھی بت ہے، یہ بھی بت ہے- پھر آگے کہتے ہیں کہ:
اگر تاجِ کئی جمہور پوشد ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست |
جمہور یعنی اگر مزدور خسرو بادشاہ کا تاج پہن لےتو پھر بھی انجمن میں سرمائے کی ہوس تو اسی طرح موجود ہے- مزدور بھی اسی ہوس میں لڑ رہاہےجس ہوس میں سرمایہ دارلڑرہاتھا-
نماند نازِ شیریں بے خریدار اگر خسرو نباشد کوہکن ہست |
یہاں پر اقبال ناز شیریں کااستعارہ استعمال کرتے ہیں جس سے مراد محبوبہ ہے اور اس کے عاشق کون کون ہیں؟ ایک اس کا عاشق خسرو بادشاہ ہے دوسرا اس کا عاشق کوہکن (مزدور)ہے- اب اقبال یہ کَہ رہےہیں کہ شیریں سے مراد زر پرستی ہے، دولت و سرمائے کی ہوس ہے، مزہ تو تب تھا کہ اشتراکیت سرمائے کی ہوس کوختم کرتی- لیکن افسوس! سرمائے کی ہوس نہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کرسکا اورنہ اشتراکی نظام- لہٰذا برائی اپنی جگہ موجود ہے چاہے سرمایہ داری ہو چاہے اشتراکیت- یہی بات اقبال نے اردو میں کی کہ:
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا! طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی |
یعنی مزدوروں کا طریقہ (اشتراکیت) بھی بادشاہوں اور سٹالن والا ہےاس کے علاوہ باقی اشتراکی ریاستوں میں جوظلم کیا گیا علامہ کے نزدیک وہ بھی بادشاہت والی ہوسِ زر کا ہی مصداق ہے -اس لئےعلامہ اقبالؒ نے ان دونوں کومسترد کیا-
اقبالؒ نے اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو رد کیا، اپنی معجز بیانی سے سرمایہ داری، جاگیر داری کی جڑیں اکھیڑ دیں- پھر اشتراکیت پہ بھی وہی تنقید کی جوانہوں نےسر مایہ دارانہ نظام پر کی-
اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا معاشی آیئڈیل کیا ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کی ایک نظم جس میں بڑے کمال کا تغزل ہے؛ اس کے تین اشعار پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ اس نظم میں علامہ نے دونوں (اشتراکیت اور سرمایہ داری)پہ تنقید کی ہے-بقول اقبالؒ:
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہرِ یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگرجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ کاری ہے |