قسط نمبر 09
یعنی مزدوروں کا طریقہ (اشتراکیت) بھی بادشاہوں اور سٹالن والا ہےاس کے علاوہ باقی اشتراکی ریاستوں میں جوظلم کیا گیا علامہ کے نزدیک وہ بھی بادشاہت والی ہوسِ زر کا ہی مصداق ہے -اس لئےعلامہ اقبالؒ نے ان دونوں کومسترد کیا-
اقبالؒ نے اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو رد کیا، اپنی معجز بیانی سے سرمایہ داری، جاگیر داری کی جڑیں اکھیڑ دیں- پھر اشتراکیت پہ بھی وہی تنقید کی جوانہوں نےسر مایہ دارانہ نظام پر کی-
اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا معاشی آیئڈیل کیا ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کی ایک نظم جس میں بڑے کمال کا تغزل ہے؛ اس کے تین اشعار پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ اس نظم میں علامہ نے دونوں (اشتراکیت اور سرمایہ داری)پہ تنقید کی ہے-بقول اقبالؒ:
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہرِ یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگرجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ کاری ہے |
یہاں سرمایہ داری سے مراد سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ سرمایہ داری سےمراد نازِشیریں ہے اور نازِ شیریں سے مراد ہوسِ دولت ہے- اقبال اپنے آ یئڈ یل کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک متبادل خیال موجود ہے یعنی ان دونوں میں جو اچھائی ہےوہ اس اچھائی کوچن لیتاہے- اس پہ اقبال کا ایک وضاحتی خط ہے جس میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ:
’’مجھ پہ یہ الزام لگا کہ میں اشتراکیت پسند ہوں تو میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں- یعنی کسی صاحب نے کسی اخبا رمیں میری طرف بالشویک خیالات منسوب کئے چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے؛[1]اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے- مَیں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل اور براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن مجید نے تجویز کیا ہے – اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب اعتدال سے تجاوز کر جائے تو وہ دنیا کیلئے ایک قسم کی لعنت ہے – لیکن دنیا کو اس مضمرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں-قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانونِ میراث ، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے- فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابلِ عمل بھی ہے- روسی با لشوازم یورپ کے عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبر دست ردِعمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی با لشو ازم دونوں افراط اورتفر یط کا نتیجہ ہیں- اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی ہے جس کا مَیں اوپر اشارۃً ذکر کر چکا ہوں ‘‘-
اقبال علیہ الرحمہ کی اِس جامع تحریر کے بعد کسی قسم کی غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ سمجھنا از حد آسان ہو جاتا ہے کہ اقبال کا ’’اکنامک آئیڈئیل‘‘ کیا ہے – ضربِ کلیم کے حصہ ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب ‘‘ کی پہلی نظم ہی اشتراکیّت پہ تبصرہ کی صورت میں ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کو اشتراکیّت کے سامنے دامنِ خیرات پھیلانے کی بجائے قرآن میں ڈوبنے کی دعوت دی ہے اور بتایا ہے کہ جس معاشی مساوات کا غوغہ روس نے آج بپا کیا ہوا ہے معاشی مُساوات کا اِس سے بہت عظیم ماڈل 1300 سال قبل اسلام نے عطا کیا ہے :
قراں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مُسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار جو حرفِ ’’قُل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمو دار |
اِقبالؒ کا آئیڈیل؛ اسلام کا تصورِ معیشت ہے اور اقبالؒ کا اپنا علی گڑھ میں دیا گیا مشہور لیکچر ’’ملتِ بیضاء پہ ایک عمرانی نظر‘‘امت مسلمہ کے عمرانی مطالعہ کے تناظرمیں ہے- جس کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے؛ جسےاقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے- بالخصوص اکنامکس کے طالب علم کو یہ ضرور پڑھنا چاہیے- اس کے علاوہ اقبال نے اسلام کے اصُولِ معیشت کو بہت زیادہ نہیں لیکن اشاروں کنایوں میں اپنے باقی لیکچرز میں بھی بیان کیا ہے-کلام اور مکاتیب میں کئی جگہ پہ اقبال سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت کی بجائے اسلام کے متوازی نظام کو آئیڈیل بتاتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے وجود میں بنیادی طور پہ دولت کی ہوس کو ختم کرکے قناعت اور تطہیر پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان خود کو دولت کی پرورش میں اُس سطح تک نہیں لےجاتا جہاں دولت کی ہوس مٹانے کیلئے بنی نوعِ انسان کو ایک بالکل فضول قسم کی چیز سمجھا جائے کہ جہاں انسان مر رہے ہوں تو آپ کیلئے آپ کی معاشی ضروریات کے مقابلے میں وہ ظلم کی چکی میں پستے انسان کوئی معنی نہیں رکھتےہوں –
میں اس پہ مختصراً! عصرِ حاضر سے دو تین مثالیں دینا چاہوں گا کہ کشمیر میں پچھلے ستر سال سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے ساری دنیا جانتی ہے لیکن اس مسئلہ پر انڈیا کو مغربی تجارتی بلاک کچھ نہیں کہتا، اقوام ِمتحدہ میں سے کچھ لوگ بولتے رہتے ہیں کیونکہ انسانی حقوق پہ بات کرنا ان کی ڈیوٹی ہے- اس کے علاوہ دیگر ممالک انڈیا کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟؟؟ اس لئے کہ انڈیا کے ساتھ اُن کا معاشی مفاد (Economic Interest) ہے-کیونکہ سرمایہ دار انہ نظام ہویا اشتراکیت ہو اس میں بھی بنیاد آپ کے معاشی تعلقات کی ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اگرہم انڈیا سے یہ بات کریں گےتوہماری معیشت اورتجارت ہندوستان کے ساتھ متاثر ہوگی-
اسرائیل کےساتھ بھی یہی مسئلہ ہے، اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے ساری دنیا کو ہم سے زیادہ اس کی خبر ہے، لیکن کوئی بھی اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراسم رکھنے والا ملک، فلسطین کےمسئلےپہ بات نہیں کرتا- کسی بھی عرب ملک سے زیادہ اور کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف ایکشن لئے ہیں-جنوبی افریقہ وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل پہ(Arms Embargo ) لگا یا ہے – ہمیں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن باقی دنیا اس لئےخاموش ہے کہ اسرائیل میں ان کامعاشی مفاد (Economic Interest) ہے –
برما میں بھی یہی صورت حال ہے؛ میرے حواس ساتھ نہیں دیتے اس کی صورتحال کو بیان کر سکوں کیونکہ جو ویڈیوز برمی روہنگیا مسلمانوں پہ تشدد کی منظرعام پرآئی ہوئی ہیں زبان اس درندگی کو بیان کرنے سے قاصر ہے- یعنی انسانوں کے ٹکڑے کرنا ؛ واضح نظر آرہا ہے کہ وہ تڑپ رہے ہیں اور ایک ایک ٹکڑا جسم کا الگ کر رہے ہیں، یوٹیوب اور ہر جگہ پہ یہ مواد موجود ہے – چین بھی برما میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ؛ میرے چائنہ میں چینی دانشوروں کے ساتھ اس پہ مباحثے ہوئے ہیں کہ اگر چین برما میں ا تنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اسے برمی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے- لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے بات نہیں کرتے کہ برما میں ہماری بہت بڑی انویسٹ منٹ ہے، ہمارا معاشی مفاد مجروح ہوگا جو ہم کسی صورت نہیں چاہتے – اس لئے تو حکیم الامت اس کی ترجمانی یوں کرتے ہیں کہ: (زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا! – طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی)
یعنی ہوسِ دولت تو اپنی جگہ پر موجود ہے؛ کیونکہ جس قدر معیشت روپے، پیسے، ڈالر، پونڈ اور یورو کا وقار بلند ہوتا گیا اسی قدر انسان کا وقار پست ہوتا گیا- اس لئے اقبال اسلام کے معاشی اصول کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے کہتے ہیں اسلام کا معاشی اصول دینار، درہم، روپے، سونا اور چاندی کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ اسلام کے معاشی اصول کی اولین ترجیح انسانی حرمت و توقیر ہے – یہی نظریہ قائد اعظمؒ نے یکم جولائی1948ء کو ’’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے بیان کیا کہ:
’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کیلئے نہ حل ہونے والے مسائل پیدا کردیے اورہم میں سےاکثریت کی رائے میں مغرب کواس تباہی سے جو اس وقت ساری دنیا کے سرپہ مغرب ہی کی وجہ سے منڈلارہی ہے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے –[2]مغربی معاشی نظام انسانوں کے مابین عدل اور بین الاقو امی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی میں بپاہونے والی دو عالمی جنگوں کی ذمہ داری سراسر اِسی نظام پہ عائد ہوتی ہے -دنیا ئے مغرب مشینوں کی دولت صنعتی فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بد ترین باطنی بحران سے دو چار ہے-اگر ہم نے مغرب کا معاشی تصور اور نظام اختیار کر لیا تو عوام کی پر سکون خوشحالی حاصل کرنے یعنی کہ اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی‘‘-
قائد اعظم کا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے- میرے نزدیک یہ پاکستان کی معاشی پالیسی کا اصول ہے جسے قائد اعظمؒ نےواضح کیا-کیونکہ قائد اعظم ؒ نے اس کے بعد یہ کہا تھا کہ:
’’میں یہ چاہتا ہوں کہ سٹیٹ بینک مغرب کی معاشی تقلید نہ کرے بلکہ اسلام کے وہ اُصول ڈھونڈیں اور ان کو نافذ کریں تاکہ ہم مخلوق کو اس کرب سے بچا سکیں جو مغرب کے معاشی نظریات کی وجہ سے یہاں پہ جاری و ساری ہے‘‘-
علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ کا اسلام کے معاشی آئیڈیئل پہ اعتقاد بھی تھا اور اصراربھی -کیونکہ یہاں واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا آئیڈیل نظام سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت نہیں بلکہ اسلامی معاشی نظام ہے جو کہ قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں-
علامہ اقبال کی ایک مشہور ڈرامائی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ہے جس میں شیطان کے پانچ مشیر اس کے ہمراہ بیٹھ کر دنیا بھر کی سیاست اور حالات و واقعات کو بیان کر رہے ہیں- اس میں سب سے پہلے شیطان اپنا افتتاحی بیان دیتا ہے اور پھر اس کے بعد پہلا مشیر، دوسرا مشیر، تیسرا مشیر، چوتھا مشیر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں-پانچواں مشیر مارکسسٹ انقلاب کی بات کرتا ہے کہ یہ مارکسسٹ انقلاب دنیا بھر میں پھیل گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ڈوبنا طے ہے، ہم نہیں بچ سکتے-ابلیس یہ بات سن کر جلال میں آجاتا ہے اور سارے مشیروں کو چپ کروا کے اپنی لمبی چوڑی باتیں چھوڑتا ہے- اس کے بعد یہ کہتا ہے کہ تم مجھے مزدکیت سےڈراتےہو، اقبال کی زبان میں مزدکیت[3] بھی اشتراکیت کو کہتے ہیں وہ کہتا ہے کہ:
کار گاہ ِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو! دستِ فطرت نے کِیا ہو جن گریبانوں کو چاک مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو |
یعنی جن گریبانوں کوفطرت نے چاک کیا ہو، کارل مارکس کی سوئی اور دھاگہ سے ان کو رفو نہیں کیا جاسکتا-
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد یہ پریشاں روز گار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو |
ابلیس کہتاہے کہ میں کارل مارکس، اشتراکیوں اور مغرب کے جمہوری نظام سے نہیں ڈرتا-مجھے خدشہ اور ڈر اس بات کا ہے کہ:
جاری ہے ۔