کمیونزم ،کیپٹلزم ،اسلام ایک تقابلی جائزہ

Loading

قسط نمبر 13 آخری قسط

یعنی گندم کے خوشے پہ اُسی کا حق ہے جو اُسے کاشت کرتا ہے- ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے بھی یہی اصلاحات لانے کی کوشش کی جس کے مقابلے میں جاگیردار اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے حق میں بہت سارے فتوے بھی مل گئے- جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں پہ اقبال کا تصور رائج نہیں ہونے دیا-مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آ جانے کے بعد بھی زمین کی غیر منصفانہ تقسیم (یعنی جاگیر دارانہ نظام) کا برقرار رہنا اقبال کے نظریۂ پاکستان سے انکار اور غداری کے مترادف ہے-

’’زمین کا مالک اللہ ہے‘‘ اس موضوع پہ اقبال کا کلام کلیات میں کئی جگہ پھیلا ہوا ہے ، فارسی میں بھی اُردو میں بھی- بالِ جبریل میں اقبال کی ایک نظم جس کا عنوان ’’اَلاَرْضُ لِلہ‘‘، ہے- جس کا ترجمہ ہے ’’زمین اللہ کیلئے‘‘-اس نظم میں جتنے سوالات ہیں ان کا ایک ہی جواب ہے-

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ ساز گار؟
خاک یہ کس کی ہے،کس کا ہے یہ نُورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشئہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کِس نے سکھلائی ہے خُوئے انقلاب؟
دِہ خُدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں
v     مٹی کی تاریکی میں کسان بیج بوتا ہے اسے پالتا کون ہے؟ ’’اللہ‘‘-
v     دریا کی موجوں سے یہ بخارات کی صورت میں بادل کون اٹھاتا ہے؟ ’’اللہ‘‘-
v     کسان بیج بوتا ہے لیکن گندم کے پودے پہ گندم کے دانے کون اگاتا ہے؟’’اللہ‘‘-
v    یہ موسموں کی تبدیلی، رات اور دن، شبنم اور پانی، روشنی اور ہوا قدرتی طورپہ کون مہیا کرتا ہے؟’’اللہ‘‘-
v    دِہ خدایا! اے دیہات کے جاگیر دار!یہ زمین اللہ کی ہے-
اس لئے اقبال نے اس کا نام ’’اَلاَرْضُ لِلہ‘‘رکھا –
اسی نظم سے دو نظمیں پیچھے نظم ’’گدائی‘‘ہے وہ بھی اقبال کے تصور معیشت پر بڑی معنی خیز ہے – اس کے بعد ’’پیامِ مشرق‘‘ میں ’’قسمت نامہ سرمایہ دار اور جوابِ مزدور‘‘ نہایت قابلِ مطالعہ ہے-کیونکہ اس میں اقبال نے اس بات پہ بصیرت افروز بحث کی ہےکہ کس طریقے سے سرمایہ دار اور جاگیر دار کسان اور مزدورکو اپنے شکنجے میں گرفتار کرتا ہے-
گفتگو کا اختتامیہ یہ ہےکہ اقبال نے سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت؛ ان دونوں سے اتفاق نہیں کیا- اقبال کا آئیڈیل اسلام کا معاشی اصول ِ ہےجس پہ اس وقت دنیا میں بڑا کام ہورہا ہے – مَیں بھی چاہتا ہوں کہ اس پر کام ہو بلکہ اس عظیم تعلیمی و تحقیقی ادارے سے گزارش بھی کروں گا کہ ہمارا ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ وہ بھی اسلام کے معاشی تصور پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؛ اگر ہم مل کر اس پہ کوئی کام کرسکیں تو ہمارے لئے اعزاز ہوگا- اقبالؒ نے زرعی اصلاحات کا جو مطالبہ کیا تھا بہت اہمیت کا حامل ہے – میرے نزدیک پاکستان تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک یہاں کےکسان کامسئلہ حل نہیں ہوتا – کسان کامسئلہ صرف دو وقت کی روٹی نہیں ہے بلکہ کسان کا اصل مسئلہ وہ زمین ہے جسے وہ کاشت کرتا ہے، وہ خوشئہ گندم ہے جسے وہ اُگاتا ہے – اس لئے اقبال نے اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں جو معاشی آئیڈیل اور اصول دیا ہے ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے- اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو؛آمین!
٭٭٭

[1](یہ جومارکسسٹ آیئڈ یالوجی ہےآخر میں آپ کوایک طرح کی دہریت کی طرف لےجاتی ہے گوکہ مارکسسٹوں میں بڑے بڑے مذہبی لوگ بھی تھے لیکن اقبال نےاس سےعمومی طورپر یہ خیال لیا کہ آپ کو خارج از اسلام کردیتی ہے-)
[2](یہ وہ وقت ہے 1948ء،جب دوسری جنگِ عظیم باقاعدہ ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے اثرات ابھی تک پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں-)
[3](تاریخی حوالےسے جونظریاتِ مزدکیت ہیں ان پرتفصیلی بات پھر کبھی زندگی نے ساتھ دیا تو ہو گی، ابھی موضوع اور وقت کی مناسبت ساتھ نہیں دیتی کہ اس پر بات کی جائے-)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں