قسط نمبر 11
میرے دوستو! اقبال اشتراکیت اورسرمایہ داری نظام کی بجائے اسلام کےاصولِ معیشت کی بات کرتے ہیں –
اقبال 1926ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے- اپنے ’’لیجیسلیٹو کیرئر‘‘ میں اقبال نے جو سب سے اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں ان میں ایک اقبال کی فلور آف دی ہاؤس پہ قرار داد ہے جس سے بڑے بڑے کانپتے ہیں-کیونکہ وہ زرعی اصلاحات اور جاگیر دارانہ تسلط کے خاتمے کی ہے- اقبالؒ اپنے خطوط میں یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ زمینیں جاگیرداروں نے تاریخی طورپہ کیسےحاصل کیں ؟ خواتین و حضرات اس پر بھی تحقیق کریں – آپ کومختصراً بھی عرض کروں کہ اقبالؒ یہ کہتے ہیں :
خدا آن ملتی را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت بہ آن ملت سروکاری ندارد کہ دہقانش برای دیگران کشت |
پاکستان کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر ہے اور پاکستان میں زراعت کی ترقی نہ کرنےکی وجہ جاگیردارانہ نظام اور زمین کی غیر منصفانہ تقسیم ہے-اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ اللہ ان قوموں کو دنیا میں سرخرو کرتا ہے جواپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں-خدا ان قوموں کو دُنیا کی حکمرانی نہیں بخشتا جس قوم کے دہقان اپنا حق حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کے پیٹ بھرنے کے لئے اپنی زندگیاں کاشت کاری میں ختم کردیں-اسی لئے اقبال فرماتے ہیں کہ:
جاری ہے ۔