تحریر:شلی بلوچآزادی کے نام پر بے مقصد جنگ نے بلوچستان کے کئی ہیرے نگل لئے۔ وہ نوجوان جو مستقبل میں لیڈر شپ سے محروم بلوچستان کے عوام کی دست و پا ثابت ہو سکتے تھے، اس جنگ نے ان سے وہ موقع چھین لیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور اپنی خلوص کو اس پسماندہ قوم کی بہتری کے لئے استعمال کرسکیں۔ کئی تجربہ کار سیاسی کارکن اور انتہائی تعلیم یافتہ نوجوان انا پرست اور تنگ نظر رہبروں کے انا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ آج بلوچستان میں وسیع نظر سیاسی لیڈروں کا جو قحط ہے، اس کا زمہ دار نہ بلوچستان کی پسماندگی ہے اور نہ ہی کسی اور قوت نے بلوچستان کو سیاسی حوالے سے پسماندہ کررکھا ہے، بلکہ آزادی کے نام پر جاری تشدد ہی وہ ڈائن ثابت ہوئی ہے جو چھن چھن کر بلوچستان سے اس کی قیمتی اثاثے چھین رہی ہے۔ بلوچستان تاریخ میں کبھی بھی اس طرح کی صورت حال کا شکار نہیں ہوا ہے جن مشکلات کا شکار آج کا بلوچستان ہے۔ دنیا بھر میں رہنمائی کے دعوے داروں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی غلطیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرکے اپنی انا کو اپنے لوگوں کے لئے قربان کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بلوچستان میں رہنمائی کے علمبردار اپنے ہی لوگوں کو اپنے انا کے لئے قربان کررہے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ بانک کریمہ جیسے چُنیدہ اور با صلاحیت لوگ جو صدیوں پرانی روایات کو جھنجوڑ سکتے ہیں، جو پدر شاہانہ معاشرے میں عورت ہوکر بھی اپنی حیثیت منوا سکتے ہیں، ادارہ اور لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے وہ گمنام راہوں میں موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ صرف چند لوگ سوشل میڈیا پر ان کی موت کے لئے ظاہری غم و غصے کا اظہار کرکے ہفتہ دس دنوں بعد کسی اور واقعے کا منتظر ہوجاتے ہیں۔ عام لوگ جو کہ اصل قوت ہیں، انہیں پتہ بھی نہیں کہ کب کہاں کونسا واقعہ رونما ہوا ہے۔ اور موت یوں ہی بلوچستان میں تسلسل کے ساتھ رقصاں رہے گا۔ اب بجا طور پر ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں جو بھی رہنمائی کے علمبردار ہیں، موت کا یہ رقص کہیں نہ کہیں انہیں فائدہ پہنچا رہی ہے۔ اگر بات اس کے برعکس ہوتی تو کہیں سے یہ آواز اُٹھ جاتی کہ ہمیں آزادی و علیحدگی نہیں بلکہ اپنے لوگوں کی زندگیاں، ان کے لئے سہولیات اور برابری چاہئے۔ آج کے زمانے میں علیحدگی ایک سراب ہے، جس کے پیچھے جانے والے صرف اپنا نقصان کراتے ہیں۔ بلوچستان میں کسی کو تو یہ بات کہنے کی ہمت کرنا ہوگا کہ ہم مزید اس بے مقصد و بے منزل نعرے کے لئے اپنے ہیرے قربان نہیں کرسکتے۔اس لمبی تمہید کا مقصد بلوچستان کی موجودہ صورت حال اور ایک گروہ کی ریاست مخالف اور بلوچ عوام مخالف پالیسیوں کا تذکرہ کرنا ہے۔ آزادی اور علیحدگی کے نام پر اس گروہ نے نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کی کاروبار، معیشت، تعلیم اور صحت کے ذرائع کا نقصان کیا، بلکہ اس گروہ نے قیمتی انسانی زندگیوں کو ایک بے مقصد تحریک کے لئے ضائع کیا۔ کریمہ بلوچ جیسے کردار جو پاکستان میں رہ کر قومی سطح کے رہنماء بن سکتے تھے، اس گروہ نے اُن کو بھی ایک ایسے راستے پر لگنے پر مجبور کیا جس کا انجام سوائے موت اور جلاوطنی کے کچھ نہ تھا۔ کریمہ بلوچ کے معاملے میں یہ دوہرا عذاب ثابت ہوا کیوں کہ وہ جلاوطن بھی ہوئیں اور مرگ جوانی جلاوطنی ہی میں ان کی مقدر بن گئی۔ حیف ایسے لوگوں پر ہے جو کریمہ کی موت کو ایک عظیم سانحہ سمجھنے اور ایسے نقصانات سے بچنے کے لئے علیحدگی پسندی کی مخالفت کرنے کے بجائے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ کریمہ کی موت سے اُن میں مضبوطی آ جائے گی۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں نہ ماضی کا علم ہے اور نہ مستقبل کا فکر، اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجدوں میں رہنے والوں کو یہ علم نہیں کہ اُن کی انا اگرچہ جیت چکی ہے لیکن اس انا نے بلوچستان کے لوگوں اور پُرخلوص تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک نسل کو برباد کردیا ہے۔ اور اس بربادی کا جشن بھی وہ علی الاعلان منا رہے ہیں۔بانک کریمہ بلوچ کی موت قابل افسوس ہے، اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک تجربہ کار سیاسی رہنماء ہوتے ہوئے اُس نے زمانے کی تقاضوں اور اپنے لوگوں کی ضرورتوں کو سمجھنے میں تاخیر کی۔ بانک کریمہ بلوچ کی ضرورت اس کے اپنے علاقے کے لوگوں کو تھی، اندرون بلوچستان صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کی جو عدم دستیابی ہے، یہاں سیاست کرکے کریمہ بلوچ اپنے لوگوں کی خدمت کرسکتے تھے، لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اُسی سراب کے پیچھے چلے گئے جو شروع سے ہی بلوچستان کے بچوں کو کھا رہی ہے۔ کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں پر اسرار موت اور کراچی سے صرف چند گاڑیوں کے ساتھ اس کے جنازے کی بلوچستان منتقلی اس حقیقت کو عیاں کررہی ہے کہ علیحدگی پسندی کی حمایت کے لئے بلوچستان میں اب کوئی گُنجائش موجود نہیں۔ اس علیحدگی پسندی نے جو نقصان پہنچایا اسے واپس تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن کریمہ کی موت کے بعد، اگر بلوچستان میں کوئی سنجیدہ قوت موجود ہے، اسکی زمہ داری ہے کہ وہ علیحدگی پسندی کے نام پر جاری شدت پسندی کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز بُلند کرے تاکہ مستقبل میں بلوچستان کے حقیقی لیڈران ایسی تاریک راہوں میں نہ مارے جائیں۔ ان حقیقی سیاسی کارکنوں کے نقصان سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، آج قبائلی سردار اور مذہبی شدت پسند اس خلا کو پُر کررہے ہیں۔ اگر بلوچستان کے تمام مسلح گروہ اپنی غلطیوں کو دہرانے سے باز نہیں آئیں گے اور پرامن رہ کر سیاست کے لئے گنجائش پیدا نہیں کریں گے تو تاریخ انہیں بطور سرمچار نہیں بلکہ تنگ نظر شدت پسندوں کے طور پر یاد کرے گی۔