کراچی حملہ اور بلوچستان میں شدت پسندی کا مستقبل

Loading

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے ناکام حملے نے جہاں بہت سارے سوالات پیدا کئے تھے، وہاں اس حملے کی وجہ سے کئی سارے سوالات کے جواب بھی بلوچستان کے عوام کو مل گئے۔ ایک عرصے سے جو تنظیمیں قومی آزادی اور حقوق کے نام پر بلوچستان کے امن کو غارت کئے ہوئے ہیں، ان کی حالیہ کاروائی سے وہ تمام دعوے ہوا میں اڑ گئے۔ اب نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کے لئے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ کس طرح مسلح تنظیموں کے لیڈران غیروں کو خوش کرنے کے لئے معصوم نوجوانوں کی ذہن سازی کرکے انہیں قتل ہونے اور قتل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں بلکہ یورپ میں بیٹھے بہت سارے بلوچ بھی کھل کر اب مسلح تنظیموں کی مخالفت کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ اب مسلح تنظیموں کی پگھلتی برف کو حالیہ واقع نے ایک ایسی تپش فراہم کی ہے جو بلوچستان میں مسلح شدت پسندی کے خاتمے کی جانب ایک اہم سیڑھی ثابت ہوگی۔ بلوچستان میں مسلح شدت پسندی بلا جواز ہے، ایسے معاملات جن کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے ان کے لئے بندوق اٹھانا اپنی نسلوں کو ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں، اور آج مسلح تنظیموں کے تمام لیڈران یہ ثابت کررہے ہیں کہ ان کو بلوچستان کے عوام کی زندگیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، بلکہ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر لاپرواہی کے ساتھ بلوچوں کی زندگیوں کو اپنی ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔ ان مسلح تنظیموں کے اندھے پیروکار اگرچہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ ان کے لیڈران ذاتی مفادات کے لئے بلوچستان کے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، لیکن ان کے اعمال یہ صاف طور پر بتا رہے ہیں کہ کس طرح اپنے پروپگنڈے اور اپنے نام کی تشہیر کے لئے یہ لوگ معصوم نوجوانوں کو استعمال کررہے ہیں۔
کراچی حملے کے لئے یا بلوچستان میں سرکاری اور عوامی تنصیبات پر حملوں کے لئے جن لوگوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے ان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ان نوجوانوں کو معاشرے سے علیحدہ کرکے یہ مسلح تنظیمیں ان کی برین واشنگ کرتی ہیں تاکہ ان نوجوانوں کو کسی بھی کاروائی کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ ان تنظیموں کے سربراہان خود ایران اور افغانستان میں بیٹھے ہوئے ہیں، ان کے بچے باہر ملکوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں لیکن سادہ لوح نوجوانوں کو یہ استعمال کرکے بیرونی قوتوں کو خوش کرتے ہیں۔ ان کے اس عمل کا نقصان کسی اور کو ہو نہ ہو یہ الگ بات ہے، لیکن یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ان شدت پسندوں نے بلوچستان کو ہر حوالے سے ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ اس لئے اب سنجیدہ طبقے ان مسلح تنظیموں کی کاروائیوں کی کھل کر مذمت کررہے ہیں۔
مسلح تنظیموں کی بیس سالہ کارکردگی اس بات کو عیاں کرچکی ہے کہ ان کو نہ بلوچستان کے عوام کی خوشحالی سے غرض ہے اور نہ ہی وہ بلوچستان میں ترقی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے بے خبر اپنے ناک کی سیدھ میں جارہے ہیں۔ جو قوتیں ان مسلح تنظیموں کو استعمال کررہی ہیں وہ بھی یقینا یہی چاہتے ہیں کہ اس طرح کے لاپرواہ لیڈران متحدہ ہوجائیں تاکہ آسانی کے ساتھ ان کو استعمال کیا جاسکے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی قریب کی چند واقعات کو دیکھنا ہوگا۔ بلوچستان کی صورت حال پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ کس طرح ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم جو چند سالوں پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے لیکن بعد میں براس کے نام سے بننے والی اتحاد کا حصہ بن گئے۔ یہ اتحاد اس وقت بن گیا جب اسلم کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انڈیا میں گئے ہیں اور انڈیا کی ایک ہسپتال سے اس کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا میں گردش کررہی تھی۔ اس کے انڈیا جانے کی خبر کو بی ایل اے نے میڈیا میں شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسلم بلوچ کی انڈین ایجنسیز کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔ اگر ان باتوں کی تفصیل تک جایا جائے تو کئی صفحے کالے ہوجائیں۔ ان تنظیموں کی اتحاد، ان کے حالیہ بیانات اور ماضی قریب کے ان کی دشمنی کا اچانک دوستی میں بدلنا، ان سب واقعات کو دیکھ کر کوئی بھی شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ان مسلح تنظیموں کی ڈوریاں کہاں سے ہل رہی ہیں۔
بلوچستان کے مستقبل کا مالک وہی لوگ ہیں جو بلوچستان میں ہیں۔ انہی لوگوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کب تک ایسی گروہوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے جو خود دوسروں کے لئے بلوچستان کا نقصان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وقت یہی ہے کہ بلوچستان کی تمام سنجیدہ رائے رکھنے والے لوگ ان تنظیموں کے خلاف یکجا ہوجائیں تاکہ مزید کسی کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ معصوم بلوچوں کے خون کو اپنے ذاتی اور گروہی مقصدوں کے لئے استعمال کرے۔
تحریر/ ھنین بلوچ ☝☝🇵🇰

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں