شام کو آفس سے فارغ ہوکر گھر پہنچا ,کھانا کھانے کے بعد چائے ٹیبل پر رکھ کے دن بھر کی اپڈیٹ موبائل ہاتھ میں لئے فیس بک سے دیکھنے لگا .پڑھتا گیا تو نیچے کہیں زرمبش نیوز سے ایک خبر کی شہ سرخی کچھ اس طرح تھی ” آواران کی آبادی چاروں طرف کرٹین کردی گئی ,گن شپ ہیلی کاپٹروں سے سول آبادی پر زبردست بمباری سینکڑوں انسانی جانوں کے زیان کا خطرہ ” اپنے علاقے کی یہ خبر پڑھ کر ایسا لگا جیسے ساتھ آسمان مجھ پر گر پڑے ہیں ,لرزتے انگلیوں سے اپنے والد صاحب کا نمبر ملایا بل جانے پر دل اور دھڑکنے لگا ,ہیلو جی بیٹا کا جواب نہ دیتے ہوئے کس کس کو کیا نقصان ہوا میں نے دریافت کیا ? ابو یہ سن کہ ششدر رہہ گیا ؟ کیا مطلب بیٹا خیر تو ہے ؟ پھر میں نے سلگتی ہوئی آواز میں پوچھا ابا جان آپ سب خیریت سے ہیں ناں ؟ پھر والد کے اصرار پر میں نے کہا بمباری جو وہاں ہورہی ہے آواران میں ؟ بمباری؟ کدھر ؟ کہاں؟ بابا نے پوچھا ! ادھر تو کہیں کوئی بمباری نہیں ,ہم تو باہر چارپائیوں پر بیٹھے موسم کا لطف اٹھا رہے ہیں ہیں یہاں سب کچھ معمول کے مطابق رواں دواں ہے ! پھر میں نے کہا یہاں شہ سرخیوں کے مطابق تو آواران اور گرد نواں میں یروشلم والی حالات ہیں .نہیں بیٹا یہاں سب کچھ ٹھیک ہے البتہ علی الصبح سیکورٹی فورسز نے شرپسندوں کے ٹھکانوں پر ٹارگٹڈ آپریشن کی ہے مگر وہ بھی پہاڈوں پر جس سے کافی شرپسندوں کے جان بحق ہونے کی خبریں گردش کررہی ہیں ! جس کی تصدیق بھی کالعدم تنظیم کے سربراہ نے کی ہوئی ہے .تب جاکر میری جان میں جان آگئی سکوں کان سانس لینے کے بعد جب چائے ہاتھ میں لی تو وہ بھی ٹھنڈی ہوچکی تھی .دوسری چائے بنانے کے دوران میں خود سے سوالات کرنے بیٹھا ! یار آخر ماجرہ کیا ہے .!!کیوں ایران میں بھیٹے قاضی ریحان اور زلفقار زلفی یورپ میں بیٹھے نام نہاد ناقدین ایسی جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں؟ ان کے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کے مطابق تو بلوچستان میں زبردست ہنگامہ برپا ہوتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے !کافی سوچنے کے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کامیاب ہو گیا کہ سائبر دنیا میں وہ اپنی ایک الگ بلوچستان بنا بیٹھے ہیں ایک ایسا خیالی اور بناوٹی بلوچستان جہاں عراق اور افغانستان جیسی صورتحال وہ پیدا کرچکے ہیں ,جہاں روز یروشلم جیسی بمباری ہورہی ہوتی ہے ,جہاں ساوتھ وزیرستان جیسے ماحول پیش کئے ہوتے ہیں کہ لوگ گھروں میں محصور ہیں چادر و چار دیواری کی پامالی ہورہی ہے ,جہاں وہ اپنی مرضی کے حالات پیدا کرکہ اپنی مرضی کے ایونٹس چلا کر اپنی مرضی کے پروپیگیشن کرکہ اپنی بنائی گئی دنیا کے خود ساختہ سرکل کے لوگوں سے ہمدردیاں سمیٹتے ہیں .اس بناوٹی اور خیالی دنیا کو بنانے میں بیرون ملک باگے ہوئے چوروں کے علاوہ سرفیس پر موجود بے سمت والی نام نہاد قوم پرست پارٹیاں بھی برابر کے حصہ دار ہیں پارلیمنٹ جانے کا موقع ملے تو وہ پارلیمان پرست بن جاتے ہیں اور بے روزگاری کی حالات میں محض عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے مزاحمتی نظریے کی پیروکار بن جاتے ہیں ان کی ان بے ہودہ رویوں اور سیاسی مصلحت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز کو بیرونی دشمنوں کے علاوہ ملک میں موجود دونوں طرف سے کھیلنی والی پارٹیوں کے کچھ سازشی لوگوں سے بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے .ان نام نہاد کرائے کے قاتلوں اور نام نہاد نیشنلسٹوں کی اس خیالی اور بناوٹی دنیا کے علاوہ ایک حقیقی دنیا بھی ہے جہاں ہم سب بلوچ رہہ رہے ہیں جس کی ہر چیز حقیقت سے منسلک ہے جہاں ترقی یافتہ بلوچستان کیلئے زبردست پالیسوں پر عمل ہورہا ہے جہاں امن مشن کیلئے جاں باز پاکستانی فورسز شیطان نظر اور خلیل جیسے چوروں اور بلوچ دشمنوں سے پہاڈوں میں نبرد آزما ہے .آن گراونڈ بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن سیدھا ان کالعدم تنظیم کے غنڈوں کے کیمپوں میں کیے جاتے ہیں جو جہنم واصل ہونے کے بعد ان کے بیرون ملک آپریٹر ان کو اپنے شہدا ظاہر کرکہ ان کو سلامیاں بھی پیش کرتے ہیں؟ اس طرح کے جھوٹے فیبریکیٹڈ خبریں پھیلانے میں یہ ٹولہ کافی مہارت رکھتا ہے .پچھلے دنوں دشت میں آگ لگنے والی خبر کو بھی کچھ یوں پیش کیا گیا ” اب آبادی کے ساتھ ساتھ جنگلوں کو بھی تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ بلوچ مال مویشی نہ چرا سکیں ,پورے دشت کی جنگلوں میں آگ بھڑک اٹھی ہے جو کئی کلومیٹر طول پکڑتا جارہا ہے ” مگر اگلے دن وہاں کے زمیندار نے آ کر وضاحتی بیان دیا کہ میں اپنی زمین لیول کرنے اور اسے کاشتکاری کے قابل بنانے کےلئے اضافی گھاس پوس اور جھاڑیاں جلا رہا تھا لہذا اسے کسی اور کے کانتھے میں مت ڈالیں ؟ کتنی فلاپ سین ہوئی ؟ کتنی شرمندگی ہوئی ہوگی ان کو ؟ ایک دن بلیدہ زاعمران میں بھی بلوچوں پر شدید جھڑپوں کی خبر پھیلائی جارہی تھی مگر شام کو کالعدم تنظیم نے اپنے کمانڈر اسحاق کے مرنے کی تصدیق کی ؟ کیا اسحاق بیگناہ تھا ؟ کیا کبھی سول آبادی پر شیلنگ ہوئی ہے ؟ بالکل نہیں ! پہاڈوں پر پھرتے ہزاروں چوراہوں سے پوچھا جائے کہ کیا ان کو کبھی بھی ریاستی فورسز نے تنگ کی ہے ؟ کبھی نہیں. یاں البتہ ان غنڈوں اور چور ٹولے نے ضرور رات کو ان بیچاروں کی بکریوں کو زبردستی چھین کر سجیاں بنائی ہونگی ؟ ہزاروں نوجوان دشت , زاعمران اور بالگتر اور گرد نواں کی پہاڈوں پر روزانہ پکنک پر جاکر سیر سواد کرتے ہیں ان سے یہ رائے لی جائے کہ آج تک ان کو کسی نے وہاں جانے سے روکا تک ہے ؟ بلکہ یہ نوجوان فورسز کی موجوگی پر خود کو ان چوروں اور کالعدم رہزنون سے محفوظ محسوس کرتے ہیں !اگر شیطان نظر ،اسلم اچھو اور خلیل مردار کی بنائی گئی دنیا کی خبروں میں کچھ صداقت ہوتی تو ان ہی سے پوچھا جائے کہ ان کے اہل خانہ جب افغاستان فرار ہونے کی کوشش میں پکڑے گئے تو بعدازاں کس طرح فورسز نے عزت و احترام اور پروٹوکول کے ساتھ ان کو رہا کیا ! فورسز کے ہاں نہ صرف خواتین بلکہ ہر بلوچ کی عزت و ناموس کا خیال رکھا جاتا ہے مگر دوسری جانب افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کالعدم تنظیم کے ہاتھوں سینکڑون خواتین بے دردی سے قتل کئے گئے حتی کہ بعدازاں ان کو ان تنظیموں نے دلیرانہ طریقے سے قبول بھی کئے مگر وہاں کیوں سب نے چھپ کا روزہ رکھا ہوا تھا ؟یہ لڑائی خود ساختہ اور ان پر انڈیا کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے یہ لڑائی ناانصافی اور حقوق کے خلاف کی جنگ بالکل نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو امریکہ جیسے غیرجانبدارملک ان بلوچ تنظیموں کو کالعدم ڈکلئیر نہ کرتا ؟اب تو ستم بالائے ستم یہ ہیکہ بیرون ممالک میں بھی ان کو ” را ” ٹشو پیپر کی طرح ردی میں ڈالتا جارہا ہے جس کی واضح مثال ساجد اور کریمہ ہیں جن کو استمعال کرنے کے بعد کتنی صفائی سے ان کاصفایا کردیا گیا مگر اسی خبر اور واقعہ کو بھی اسی بناوٹی ٹولے نے کچھ الگ پیرائے میں دکھایا حالانکہ کینڈا جیسے غیرجانبدار ملک کی تفتیشی کاروائی پر عالمی دنیا کو کئیں زرہ برابر شکوک نہیں ہوتا مگر وہاں پولیس ڈپارٹنمنٹ کی حتمی رپورٹ سے قبل یہاں کے موقع پرستوں نے زمین آسمان پہ اٹھایا تھا مگر جوں ہی حتمی رپورٹ سامنے آئی تو ان کی چالبازیاں کچھ مقتدرہ حلقوں کے فہم میں آ ہی گئی پاکستان کی بڑاہ پن تو یہ ہے کہ اس نے اس خاتون کیلئے کینڈین حکومت سے شفاف تحقیقات کی اپیل کی جو روز پاکستان اور پاکستانی اداروں کے خلاف نازیبا تقریریں داغتی تھی . ان سب واقعات کو سامنے رکھنے کے بعد صاف پتا چلتا ہیکہ ان کی بنائی گئی بناوٹی دنیا میں بلوچستان کچھ اور ہے جو ایک مخصوص پلانٹڈ سرکل اور پیڈ رائٹرز کے گرد گھومتی ہے جو روز مرہ کی بنیاد پر جعلی واقعے اور خبریں بنا کر اپنی جھوٹی تحریک کو دوام بخشنے کی کوشش اور ہندووں سے داد و تحسین کے متلاشی ہوتے ہیں مگر بلوچستان میں بسے ہر بلوچ و دیگر لوگوں کو ان کی حقیقیت سے خوب آشنائی ہوئی ہے اب وہ خطہی طور پر ان کے جعلی سئابر ٹیکٹیکس کی دنیا سے اثر پذیر نہیں ہوسکتے.ان بناوٹی اور خود ساختہ دنیا بنانے والے ملک دشمن عناصر نے سی پیک کے معاملے پر عام لس عوام کو وفاق اور صوبوں سے لڑانے میں کوئی کار نہ چھوڑی لیکن اللہ کے فضل سے اب ساری دنیا دیکھ رہا ہے کہ صوبے میں عوام کے معاشی اور سوشل ڈیویلپمنٹ کیلئے ترقیاتی سرگرمیاں کس طرح زور و شور سے جاری ہیں بلوچستان کے طول و عرض میں ترقیاتی منصوبوں اور سڑکوں کا جال بچھنے سے وہاں کے عوام قومی دھارے کا حصہ بن چکے ہیں جس سے واضع طور پر بلوچستان کے لوگوں کے طرز معاش میں نمایاں تبدیلی آنے کی پوری امیدیں ہیں پاکستان کے بدخواہ ,ہمارے کچھ نام نہاد ناقدین اور مایوسی پھیلانے والے ترقی مخالف عناصر فنسنگ کو غلط ظاہر کرکہ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے قوم کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں مگر حقیقت میں یہ فنسگ آبادی اور پورٹ کی حفاظت کیلئے لگائی گئی ہیں جو سیف سٹی پراجیکٹس کے حصہ ہیں جس سے پاکستان دشمن قوتوں کی واویلا بند نہیں ہوتی۔بلوچستان اور وطن عزیز کے کچھ نام نہاد سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں صرف اس لئے ساوتھ بلوچستان پیکیج اور سی پیک کی مخالفت کرتے ہیں تاکہ وہ داتا بھارت کو خوش کر کے مال بٹور سکیں۔اب ان بناوٹی لوگوں اور نام نہاد کرائے کے دہشتگردوں کو بلوچستان میں کہیں بھی سھانے کی جگی نہیں ملےگیاب ہم سب بلوچ اور بلوچستان کی عوام اپنے محفوظ مستقبل کےلیے پاک فوج کی قربانیوں اور کاوشوں پر پاک فوج کےتہ دل سے مشکور ہیں اور رہیں گے جن کی قربانیوں سے ان بناوٹی دنیا بنانے والوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں.