جون 1928ء کو ارجنٹینا کے شہر روزایورن میں پیدا ہونیوالے چے گویرا کو آج کے نوجوان مزاحمت کی علامت سمجھتے ہیں,چے گویرا کا اصل نام ارنسٹو گویرا لاسیرنا تھا جو پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے جس کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں ہوا۔چے گویرا مارکسی نظریے کے حامل ایک جہدکار تھے اس نے طب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسی عرصے میں جنوبی اور وسطی امریکا کے کئی ممالک کا سفر کیا اس دوران چے گویرا نے کئی ممالک میں غربت اور ظلم و جبر کو محسوس کیا اور انہیں لگا کہ غربت اور ظلم کو روکنے کا واحد حل مزاحمتی جدوجہد یا بندوق ہے مگر اس وقت وہ زمینی اور معروضی حقائق سے بالکل نابلد تھے اسلئے مارکسی نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ دم تھوڑتی گئی اور جو ممالک معاشی طور پر مستحکم ہوئے وہ ممالک ترقی سے ہمکنار ہوتے چلے گئے اور جن ممالک نے مارکسی نظریے کو اپنایا وہ ممالک مزید پسماندگی کی طرف چلتے گئے۔
چے گویرا مارکسی نظریے سے اس قدر متاثر ہوچکے تھے انہیں لگا کہ جنوبی اور وسطی امریکا کے مسائل کا واحد حل مسلح جدوجہد کرنا ہے یا مارکسی نظریے کے تحت نوجوانوں کی زہن سازی کرکے ریاست کے خلاف بندوق اٹھاکر جدوجہد کرنا ہے۔
بلوچ سیاست کی بنیاد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے ہوتی ہے جو ایک مارکسی نظریے پر یقین رکھنے والی طلبا تنظیم ہے جس کے اسٹڈی سرکلز میں ہمیشہ مذاحمتی سیاست پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے نوجوانوں کی زہن سازی کی جاتی رہی ہے کہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل مزاحمت ہے اور ریاست کے خلاف بندوق اٹھا کر مرنا اور مارنا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی مزاحمتی سیاست کے پلیٹ فارم سے متاثر ہوکر زمانہ طالب علمی میں کئی نوجوان بھٹک گئے اور انہیں لگا کہ بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل کا حل پہاڑوں میں بیٹھ کر ریاست کے خلاف لڑنا ہے اور یوں مزاحمتی سیاست کی آڑ میں کئی نوجوان ریاست اور اپنے ہی اقوام کے خلاف بندوق اٹھانے لگے جس سے بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے گئے۔ بی ایس او کے فلیٹ فارم سے بلوچستان کے جن طلبا کی زہن سازی کی گئی انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ چے گویرا جس مارکسی نظریے پر قائل تھے بعد میں ان کے اپنے ہی قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ دینگے،ساتھ چھوڑنے والوں میں انکا اہم ساتھی فیڈرل کاسترو شامل تھے جو بعد میں ان سے الگ ہوگئے۔ چے گویرا کی ناکام مزاحمتی جدوجہد سے بیزار ہوکر بہت سے ممالک نے چے گویرا کو اپنے ملک سے بے دخل کردیا کیونکہ ان ممالک کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ چے گویرا کی مزاحمتی سیاست ان کے ملک میں خونریزی کے علاوہ اور کچھ فائدہ نہیں دیگی۔
بلوچستان کے وہ لیڈرز جو ستر اور اسی کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے فلیٹ فارم سے مارکسی نظریے کی جدوجہد کررہے تھے بعد میں انہیں بھی مارکسی نظریے کی ناکامی کا علم ہوا اور انہوں نے بلوچستان کے عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا اور بلوچستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے جدوجہد شروع کردی۔ جو لیڈرز مرنے اور مارنے والی سیاست پر یقین رکھتے تھے وہ بلوچستان کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیلتے گئے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جو چے گویرا کو اپنا مزاحمتی ہیرو سمجھتا تھا اپنے اسٹڈی سرکلز میں نوجوانوں کی زہن سازی کرکے انہیں چے گویرا کی مثالیں دیتا تھا کہ کس طرح چے گویرا اپنی مزاحمتی زندگی میں مصائب اور تکالیف کا سامنا کرتے تھے اور چے گویرا نے اپنی پرآسائش زندگی ترک کرکے پہاڑوں کا رُخ کرلیا۔ “چے گویرا کی ڈائری” باقاعدہ بی ایس او کے اسٹڈی سرکلز کا حصہ ہوا کرتی تھی اور ہر اتوار کے دن بلوچستان بھر کے تمام کالجز اور جامعات میں بی ایس او کے لیکچر سیشن ہوتے تھے جہاں ایک منظم طریقے سے بلوچستان کے نوجوانوں کی زہن سازی ہوا کرتی تھی۔ ستر سے لیکر نوے تک کی دہائی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اسٹڈی سرکلز میں ایسے سیاستدان بھی نوجوانوں کی زہن سازی کیا کرتے تھے جو آج پارلیمانی سیاست کے اہم لیڈرز ہیں جنہوں نے سویت یونین کے انقلاب کے وقت بیرونی امداد لیکر بلوچستان کے نوجوانوں کو نام نہاد آزادی کا نعرہ لگانے پر مجبور کردیا اور بہت سے نوجوانوں کو نام نہاد آزادی کا جھانسہ دیکر ہمیشہ کیلئے ریاست مخالف کردیا جو آج پہاڑوں میں بیٹھ کر بلوچستان کے مستقبل کو خونی کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اگر چے گویرا کی ناکام مارکسی اور مزاحمتی سیاست کے بجائے بلوچستان پر اصولی سیاست کرتی, بلوچستان کے اصل مسائل کی نشاندہی کرتی اور بلوچستان کے سیاسی, معاشی اور سماجی مسائل کو اجاگر کرتی اور انکے تصفیہ کرنے کا حل پارلیمنٹ میں رہ کر ڈھونڈتی تو شاید آج بلوچستان پاکستان کا سب سے خوشحال ترین صوبہ ہوتا۔