طویل ساحل سمندر‘ قیمتی معدنیات کے بیش بہا ذخائر اور جغرافیائی اہمیت کا حامل بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد حصہ بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی۔ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے 15مارچ سے25مئی 2017 تک ہونیوالی ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ23لاکھ44ہزار408 نفوس پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد64لاکھ83ہزار653جبکہ خواتین کی تعداد58لاکھ60ہزار646 ہے۔1998سے2017تک آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح3.37فیصد ریکارڈ کی گئی۔
اس خطّے کی اہمیت کا اندازہ بانی پاکستان قائد اعظم محمّد علی جناح کے اس فرمان سے لگایا جا سکتا ہے:
“بلوچستان بہادر اور حریت پسند لوگوں کی سرزمین ہے۔‘‘
قائد اعظم نے بلوچستان کو اپنا پسندیدہ ترین صوبہ قرار دیا تھا
بلوچستان ہمارے بانی پاکستان قائد اعظم کے دل کے بہت قریب تھا اور بلوچستان کی عوام بھی قائد اعظم محمّد علی جناح کو اپنا حقیقی لیڈر سمجھتی تھی جس کا ثبوت تاریخ کے اوراق میں جا بجا ملتا ہے۔ جس کی چند ایک امثال درج ذیل ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے بلوچستان کے دوروں کا آغاز 1934کےوسط سے ہوا تھا، آپ نے اس پہلے بلوچستان کے دورے میں تقریباً دو ماہ قیام کیا، اس کے بعد تا دم وصال قائد اعظم نے کوئٹہ اور زیارت کے علاوہ مستونگ،قلات،پشین،ڈھاڈر اور سبی سمیت اندرون بلوچستان کے متعدد دورے کیے۔ جو قائد اعظم کی اس خطّے سے والہانہ محبّت کا واضح ثبوت ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کی حیثیت سے 1943ءمیں جب کوئٹہ تشریف لائے تو انھیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی ۔ ان سے پہلے صرف وائسرائے ہند کو یہ پروٹوکول دیا گیا تھا۔
۔14 ستمبر 1945ء میں حضرت قائداعظم نے بلوچستان کا دورہ کیا۔ آپ کراچی میل کے ذریعے کوئٹہ تشریف لائے ہر سٹیشن پر والہانہ استقبال دیکھنے میں آیا۔اس انداز سے استقبال کی پہلے کوئی مثال نہیں۔ جھٹ پٹ سٹیشن پر لوگ کئی گھنٹوں پہلے موجود تھے جس میں تمام جمالی اور کھوسہ سردار اپنے قبیلوں سمیت حاضر تھے۔
جناح کیپ کے نام سے شہرت پانے والی اور بابائے قوم کی شخصیت کا حصہ بن جانے والی قراقلی ٹوپی بھی آپ کو کوئٹہ ہی میں پیش کی گئی تھی۔
۔ یہ بلوچستان ہی تھا جہاں خان آف قلات نے قائدِ اعظم کو چاندی میں تولا تھا۔
بلوچستان سےمحبت اور انس کایہ عالم تھا کہ قائد اعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزارے، علالت کے باوجود قائد نےکسی بڑے شہرجانے کی بجائے زیارت کو ترجیح دی، زیارت میں وقت گزارنا بلوچستان اور یہاں کے لوگوں سےقائدکی محبت کا مظہرہے۔
قائد اعطم نے بلوچستان سے اپنی محبت کا ثبوت قیام پاکستان کے بعد سبی میں پہلے سالانہ دربار میں فروری 1948میں طبعیت کی خرابی کے باوجود شرکت کرکے بھی دیا۔ اس خطّے سے خاص انسیت کے سبب ہی اہل زیارت آپ کو بابائےمحبت کےنام سے پکارتے تھے۔
الحمدللہ گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان کو خاص توجہ دی گئی ہے اور یہاں مختلف اضلاع ترقیاتی اور تعلیمی منصوبوں پر کام ہوا ہے لیکن اس سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں مین سٹریم میڈیا پر اپنے بلوچ بھائیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔
اسی بات کے پیش نظر ناچیز نے اس جشن آزادی کے مؤقعے پر “بلوچستان سیریز بعنوان “پاکستان کی شان صوبہ بلوچستان” لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ انشاءاللہ اس سیریز میں ہم بلوچستان کے ہر مثبت پہلو کو اجاگر کریں گے اور اس خطّے کی خوبصورتی ، ثقافت ، اور جغرافیای اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔