واقعہ معراج النبی ﷺ ازروح سائنس و تصدیق ۔۔۔

Loading

قسط نمبر :-پانچ

آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔

ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کر سکے ۔

مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی  ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے  معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔  اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے  بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا ؟

مزید بحث میں پڑنے سے پہلے چند ضروری باتیں واضح کردی جائیں تو مسئلے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ آئن سٹائن کے مطابق مادی شے کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہےجو 186000 (ایک لاکھ چھیاسی ہزار) میل فی سیکنڈ ہے دوسری رفتار قرآن حکیم نے امر کی بتائی ہے جو پلک جھپکنے میں پوری کائنات سےگزر جاتی ہے ۔

چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ ۔ (سورہ القمر: 50)

” اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا”

سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیر ٹکرائے  گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں  سرن لیبارٹری  میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے 23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت  ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)

ایک اور بات یہ ہے کہ ایٹم (Atom) کے مرکز کے گرد الیکٹرون چکر لگارہے ہوتے ہیں ،ان دونوں کے درمیان مادہ نہیں ہوتا بلکہ وہاں بھی خلا موجود ہوتا ہے۔ایک اور ذرےکے بارے میں تحقیق ہورہی ہے جس کانام (Tachyon) ہے اسکا کوئی وجود ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا لیکن تھیوری (Theory)میں اس کا ہوناثابت ہے۔یہ ہیں مادے کی مختلف اشکال اور ان کی رفتاریں۔

جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا  وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔

کالم آگے جاری ہے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں