نظریہ کمیونیزم – کامیابی کا زینہ یا بربادی کا فارمولا۔۔۔

Loading

حصہ  سوم   :-  بلوچستان میں غربت اورامن  عامہ کی خراب صورتحال کی بنیادی وجوہات میں مقامی لیڈر شپ  کا غیر مؤثر ہونا اور درج بالہ نظریات (مارکسزم ،سوشلزم  ) ہیں ۔آج بلوچستان میں کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں جو صوبے کی قیادت کرسکے ۔آج نوجوانوں کی اکثریت کسی لیڈر پر یقین کرنے کو تیار نہیں ۔جس کا نتیجہ آج کے حالات ہیں۔ لہذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ کرام اور پڑھا لکھا باشعور طبقہ جن میں نیشنل پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں ۔ان نظریات کی نفی  واضع الفاظ میں کریں اور آنے والی نسلوں کو مارکسزم /سوشلزم کے ناقابل عمل نظریات سے دور کریں جو کہ سوائےانارکی کے اور کوئی انقلاب لانے کے اہل نہیں ہیں سرمایہ دارانہ نظام دولت کو سرمایہ دار تک محدود کرتا ہے ۔کمیونزم /سوشلزم دولت کو بااختیار ڈکٹیٹرز (ملکی قیادت ) تک محدود کردیتا ہے ۔درج بالا دونوں نظام عام آدمی کو ملکیت اور ترقی سے  محروم کرتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی اور صوبائی سطح پر ایسا نظام معیشت اپنایا جائےجو عام آدمی کی ملکیت اور ترقی کی ضمانت دے۔اس مد میں مشہور مسلم مفکر اور ماہرین معاشیات نے قرآن کریم اور حدیث شریف کی روشنی میں تحقیق کی ۔ان ناموں میں ابو یوسف ،ابن حسن،ابو عبید ،امام غزالی اور شاہ ولی اللہ شامل ہیں    مندرجہ بالا ماہرین معاشیات نے تحقیق کے بات پہ نتیجہ اخذ کیا کہ  عام آدمی کو ملکیت دیئے بغیر معاشی ترقی محض ایک خواب ہے۔ اسلام ہر شخص کو صلاحیت کے مطابق زمین اور فضا کی ملکیت کا حق دیتا ہےاور نظام حکومت کو پابند کرتا ہےکہ عام آدمی کو زراعت انڈسٹری اور دوسرے شعبوں میں مکمل معاونت فراہم کرے پبلک سے پرائیویٹ اور پرائیویٹ سے پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصول بھی مقرر کئے گئے آمدن پر ٹیکس اور پورے سال جمع ہوئی دولت پر زکواۃ رائج کی گئی اور حکومت کے خزانے کا استعمال یہ مقرر کیا گیا کہ آمدن دفاع اور عام شہریوں کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کی جائے گی ۔یہ ایسا ماڈل ہے جس پر اگر تحقیقی کام کیا جائے اور کاروبار کو نفع اور نقصان میں اگر برابر تقسیم کیا جائے تو ایک آدمی کی ترقی کاخواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی جاسکتی ہے۔نبی کریم ﷺ کے سربراہان مملکت کو لکھے گئے خطوط فارن پالیسی کی بنیاد بن سکتے ہیں ۔ مدینہ کی ریاست کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت کی دو سپر پاورز (ایران ،روم ) کو ناصرف شکست دی گئی بلکہ عدل و انصاف اور فلاح وبہبود کے اصولوں پر مبنی اسلامی فلاحی مملکت قائم کی گئی ۔جو کہ آج پاکستان اور اس کے عوام کے لیے مینارہ نور بن سکتی ہے۔ دوسری طرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اوراس نے ملک چلانے کا اوراکانومی کا مکمل نظام دیا ہے۔تفصیلی طور پر مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ کمیونیزم اور کیپٹلزم دونوں نظام دونوں ملکر بھی اسلام کے نظام معاشرت اور نظام معاشیات کا 30 فیصد حصہ بھی نہیں بن سکتے تو ہمیں ضرورت اس بات کی ہے ہمیں اپنی نسلوں کو اسلام کادیا ہوا طرز معاشرت اورطرز معاشیات دیں اس سلسلے میں حضرت علامہ اقبال مولانا روم جیسی ہستیوں نے ایک اسلامی معاشرہ پروان چڑہانے کے لیے بے شمار تخلیقی کام کیا جو کہ ہمارے نوجوانوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے ۔اورنگزیب عالمگیر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام غزالی جیسی ہستیوں  نے اسلام کے نظام معیشت کو ایک مکمل شکل دی۔کریں ماضی میں  800سال کی عثمانیہ سلطنت  کی تین براعظموں پر حکومت اسلامی نظام معاشرت اور نظام معاشیات کی کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آنے والی نسل اور نوجوانوں کو اسلامی طرز حکومت   سے روشناس  کرایا جائے اور ہماری    یونیورسٹیاں اور کالیجز ایک اسلامی معیشت  اور نظام معاشرت کے اصولوں کی بنیاد پر اپنا  تحقیقی کام کریں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں