بلوچ عسکریت پسند بے گناہوں کا لہو پانی کی طرح بہا رہے ہیں ، چند روز قبل منظور ولد عرضو کی لاش کیلکور کے علاقے چوٹین سے ملی جو پنجگور کے نواحی علاقے گوارگو کا رہائشی ہے جس کی شہادت اسی تسلسل کا حصہ یے جس کو اس چور ٹولہ نے فخریہ انداز میں میڈیا میں قبول بھی کیا ۔منظور کے والدین منتظر تھے کہ ان کا بیٹا افطاری کے سامان لے کر لوٹے گا منظور بہنوں سے واپسی میں کلھونے لانے کا بھی وعدہ کرچکے تھے مگر کفن میں لپٹی لاش ہندوستان کے لفافہ خور گھات لگائے نام نہاد بلوچوں کی طرف سے موصول ہوئی جس سے عرضو کے گھر میں کہرام مچھ گیا ، کیا کسی آزاد معاشرے کی آزاد سوچ رکھنے والے انسان کا قتل کسی آزادی کی ضامن پوسکتی ہے ،جو محب وطنی اور پارلیمانی پارٹیوں کو حمایت کرنے کی پاداش میں موت کے گھات اتار دئیے جاتا ہے !!!! مگر ان کے ہاں کھیل صرف پیثے کا ہے اہداف کا نہیں کیونکہ ڈالر ان کو واردات کے حساب سے ملتا ہے اس لئے یہ نام نہاد جنگجو آسان اہداف تلاش کر کے کم خطرات کا سامنا کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پیثے حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ مسکین اور غریب ان کےلئے آسان اہداف ہیں ۔اب یہ باغی دھشت گرد ناکامی اور پشیمانی کی صورتحال سے گزرنے والے ہیں اس طرح کے بزدلانہ عملے باغیوں کی کمر ٹوٹنے اور خوفناک نفسیاتی جھٹکے کے آثار ہیں وہ پیشگی غمازی دے رہے ہیں کہ یہ مایوسی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ناکام بغاوت سے ناکامی کے بعد اب وہ معصوم شہریوں کو نام نہاد گوریلا جنگ میں بدلنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بلوچ انتہا پسند زخمی چوئے بن چکے ہیں ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ ناکامی اور ذلت آمیز موت ان کا مقدر ہے لیکن یہ مرتے مرتے اور جاتے جاتے زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں