میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں

Loading

پنجگور ( پنجگور کے علاقے تارافیس کے رہائشیوں حبیب اللہ محمد رحیم اور اسامہ نے پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
بے گناہ لوگوں کو مخبر ظاہر کرکے اُن کو قتل کرنا کہاں کی بلوچیت ہے. نہ مخبری کر سکتے ہیں اور نہ اس طرح کے کاموں سے ہمارا اور ہماری فیملی کا کوئی تعلق ہے.مزدور لوگ ہیں اور مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں اور ہم پر حملہ کرنا بلوچ روایت کے خلاف ہے اور بلوچ روایت میں گھر میں گھس کر بچوں و خواتین کو نہیں مارا جاتا.اانہوں نے کہا کہ چند ہفتے قبل بالگتر کے علاقے سہاکی میں نا معلوم مسلح افراد نے رات کو فائرنگ کرکے بے گناہ ضمیر احمد اور ظریف احمد کو شہید کردیا اور اس حملے میں جماعت ہشتم کے طالب علم محمد اُسامہ اور بچی بی بی اسما کو فائرنگ کرکے زخمی کردیا گیا.انہوں نے کہا کہ.ہم پر حملہ کرنے کی زمہ داری ایک بلوچ مسلح تنظیم نے قبول کرکے ہمیں بہت تکلیف اور ازیت میں مبتلا کردیا ہے اور اس تکلیف کو ہم برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہم غریب لوگ ہیں اور محنت و مزدوری کرکے اپنی زندگی گزار رہے ہیں اور بالگتر کے جس گھر پر حملہ ہوا تھا اس گھر میں ہم مہمان تھے اور جو لوگ اس واقع میں شہید اور زخمی ہوئے تھے اُن نے سے کسی بھی شخص کا کسی بھی گروہ یا مخبری سے کوئی تعلق نہیں.انہوں نے کہا کہ ایک گھر پر حملہ کرکے بلوچی روایت کو پامال کرکے خواتین اور بچوں پر فائرنگ کرکے بے گناہ لوگوں کو شہید کرنا اور زخمی کرنا کہاں کی بلوچیت ہے.ہمیں مخبری کاالزام لگا کر ہماری فیملی کو بد نام کرنے کی کوشش کی گئی ہے.اس حملے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک ہاشم نامی بندے کو مارنے کا بھی دعوا کیا گیا ہے اور ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے فیملی میں کوئی ہاشم نامی بندہ بھی نہیں ہے اور اس واقع میں کوئی بھی ہاشم نامی بندہ نہیں مارا گیا ہے.ہم غریب لوگ ہیں اور مخبری کا سوچ بھی سکتے.ہم پر حملہ کی زمہ داری ایک مسلح تنظیم نے قبول کی ہے جس سے ہمیں بہت تکلیف ہوئی ہے اور ہمیں اذیت ملا ہے. انہوں نے کہا کہ ظریف احمد ایک زامیاد ڈرائیور تھے جو بالگتر میں افطاری کیلئے آئے ہوئے تھے اور رات گزارنے کے بعد کولواہ جانے والے تھے کہ وہ اس حملہ میں اپنی جان کی بازی ہار گئے اور ہم پر حملہ کرکے ہمیں جانی و مالی نقصان پہنچانے کے باوجود ابھی تک ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور اس وقت ہماری پوری فیملی ایک کربناک اور ازیت دور سے گزر رہے ہیں .انہوں نے کہاں کہ زخمی اُسامہ ایک طالب علم ہے اور آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم ہے اور بچی اسماء بھی ایک طالب علم.ہے اور بچی کی آپریشن کیلئے دس سے پندرہ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں اور ہم.اس کی گنجائش نہیں رکھتے.ہم اپنے جائیداد وغیرہ کو فروخت کرکے اپنے زخمی بچوں کی زندگی کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مخبری کے الزام اور ہم کو دھمکیاں دینے سے ہماری پریشانی میں مزید اضافہ ہوا ہے اور مسلح تنظیم بی آر اے کے زمہ داراں سے انسانی ہمدردی کی بنا پر اپیل کرتے ہیں کہ ہم پر لگانے والے الزامات کاثبوت پیش کرین.انہوں نے کہا مسلح افراد کی طرف سے ہماری چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرکے ہم پر حملہ کیا جا رہا ہے اور جانی و مالی نقصان کے باوجود ہمیں مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں تو ہم کہاں جائیں اور کس کو اپنی درد دل کی داستان سنائیں .انہوں نے کہا کہ بالگتر ہمارا بنیادی جگہ اور اور ہماری زمینیں اور جائیداد کے ساتھ ہمارے کھنڈرات نما گھر بھی ہیں اور علاقے میں حالات بہتر ہونے کی شرط پر ہم دوبارہ آباد ہوکر اپنی زمینیں آباد کرنا چاہتے تھے کہ ہمیں جانی و مالی نقصان دے کر ہمیں اذیت کا شکار بنا دیا گیا ہے.آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کسی بھی مخبر گروپ اور سرکاری ادارے سے تعلق نہیں ہے اور ہم کو کسی گروہ کے ساتھ جوڑنا ایک ناانصافی اور ایک غیر بلوچی عمل ہے.انہون نے کہا کہ ایک طرف سیکورٹی فورسز علاقے میں جانے کے دوران پوچھ کجھ کرتے ہیں دوسری جانب مسلح افراد حملہ آور ہوتے پیں انہون نے انصاف کی اپیل کی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں