مودی کی معصوم بہن کریمہ بلوچ

Loading


سال 2016ء میں رکھشا بندھن کے موقع پر کریمہ بلوچ نے ویڈیو بیان جاری کیا اور نریندر مودی کو راکھی پیش کرتے ہوئے اپنا بھائی قرار دیا اور پاکستان کے خلاف مدد کی اپیل کی۔
کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ بلوچستان میں آگ لگانے کے لیے اس کو “بی ایس او آزاد” کا تعاؤن حاصل رہا جس کی چیئر پرسن اس وقت کریمہ بلوچ تھیں۔
اصل نام کریمہ مری تھا۔
دوران تعلیم اس نے “بی ایس او آزاد” جوائن کی اور تقریباً ایک عشرے بعد اسی تنظیم کی چیئرپرسن بن گئیں۔
تنظیم جوائن کرنے کی وجہ اس کا بھائی سمیر بلوچ تھا جس کو ڈاکٹر اللہ نذر کا دست راست کہا جاتا تھا۔
کریمہ بلوچ اور اس کا بھائی کمیونسٹ سرخے تھے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو “بی ایس او آزاد” کے بارے میں تھوڑا سا جان لینا چاہئے۔ “بی ایس او آزاد” بلوچ شدت پسندوں کی تنظیم ہے جو پاکستان سے بلوچستان کو الگ کرنے کے ایجنڈے پر ہیں۔ اس تنظیم سے بی ایل اے اور بی ایل ایف نے جنم لیا تھا۔
بی ایل اے کے کمانڈر حربیار مری اور بی ایل ایف کے ڈاکٹر اللہ نذر ہیں اور یہ دونوں کمانڈرز بی ایس او کے سرکردہ کارکن تھے۔
بی ایل اے نے بلوچستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ دہشتگردانہ کاروائیاں کیں ہیں خاص کر شناختی کارڈ دیکھ کر پشتونوں اور پنجابیوں کو بسوں سے اتار کر مارنا۔ ہزاروں بےگناہ بلوچوں، پشتونوں اور پنجابیوں کو قتل کیا۔
جہاں تک ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف ہے تو صرف 27 کے قریب تو وہ صحافیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔ اسی ظالم ڈاکٹر اللہ نذر نے پشاور اے پی ایس کی طرز پر سکول کے بچوں پر حملہ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ چینی قونصلیٹ پر حملے کی زمہ داری بھی ان جیسے عناصر نے قبول کی تھی۔
دونوں دہشتگرد تنظمیوں کو بی ایس او آزاد ہی افرادی قوت (بلوچ نوجوان) مہیا کرتی رہی ہے۔ اس کا اعتراف بی ایل اے کے سابق کمانڈر ڈاکٹر جمعہ خان مری بھی کر چکے ہیں۔
بی ایس او آزاد کے سابق چیرمین بشیر زیب بلوچ کے مطابق کریمہ بلوچ کا بھائی سمیر بلوچ طلباء کی تنظیم سازی کے حوالے سے ڈاکٹر اللہ نذر کے فیصلے ہم تک پہنچاتا تھا۔
اسی طرح جب بی ایل اے کے کمانڈر حربیار مری نے بی ایل اے اور بی ایس او کے حوالے سے ایک چارٹر تیار کیا تو اس میں کریمہ بلوچ نے ترامیم کیں کہ دونوں تنظمیں ملکر کیسے کام کرینگی۔
اس وقت فیصلہ ہوا کہ بظاہر بی ایس او بی ایل اے اور بی ایل ایف سے الگ دکھائی دے گی تاکہ بلوچ طلباء پر آزادی سے کام کر سکیں۔
کریمہ بلوچ میں اتنی قابلیت تھی کہ بیک وقت دہشتگرد تنظیموں اور ان کے لیے افرادی قوت فراہم کرنے والی بی ایس او کا چارٹر تیار کرتی رہیں کہ یہ سب ملکر کیسے کام کرینگی۔
اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد یہ منظر سے غائب ہوگئی تھیں۔ اس دوران کی اس شادی ہوئی۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد شوہر چھوڑ کر واپس گھر آگئی۔ بنیادی طور پر انتہائی غریب گھرانے سے تعلق تھا۔
سال 2008ء میں دوبارہ متحرک ہوئیں۔ بی ایس او کے چیرمین زاہد بلوچ اور اپنے بھائی سمیر بلوچ کی گمشدگی پر مظاہرے کیے۔ اسی دوران حربیار مری کے بہت قریب ہوگئیں۔ کہا تو یہ بھی جاتا رہا ہے کہ دونوں میں قریبی تعلقات تھے اور کینیڈا وہی لے کر گیا تھا۔
تربت میں ایک ریلی میں کریمہ بلوچ نے ایک ایف سی اہلکار سے اپنے ساتھیوں کی مدد سے گن چھینی اور لوگوں سے ایف سی والوں پر حملے کرنے کی اپیلیں کیں۔ جس پر اس کے خلاف پہلا مقدمہ درج ہوا۔
پھر ماما قدیر کے کیمپوں میں یہ “معصوم اور روتی ہوئی بہن” کی شکل میں نظر آنے لگیں۔ جس کے بعد پہلی بار اس غریب لڑکی کو سویٹزر لینڈ کا ویزا ملا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاسوں میں شرکت کرتی نظر آئیں۔
یہ وہی اجلاس ہیں جن کے بارے میں کچھ دن پہلے ڈس انفو لیب نے ثبوتوں کے ساتھ انکشاف کیا کہ ان میں شرکت کرنی والی تمام این جی اوز جعلی ہیں اور انڈین ایجنسی را کے لیے کام کرتی ہیں۔
خاص طور پر “ایفریکا” نامی این جی او جس کے لیے کریمہ بلوچ کام کر رہی ہے۔ وہ اکثر انڈین آفیشلز کے ساتھ دیکھی جاتیں تھیں۔
سی پیک پر کام شروع ہوا تو کریمہ بلوچ نے چین پر تنقید شروع کی اور اس کی پاکستان کی مدد کو غیر اخلاقی قرار دیا۔
ڈاکٹر اللہ نذر کے ساتھ اور فراری کیمپوں میں اس کی تصاویر بھی گردش کرتی رہی ہیں۔ سال 2013ء میں بالآخر پاکستان نے بی ایس او آزاد کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ تب کریمہ بلوچ اس دہشتگرد تنظیم کی چیئرپرسن بنیں۔ افغانستان فرار ہوئیں۔ وہاں سے این ڈی ایس اس کو انڈیا لے کر گئی۔ جہاں سے اس کو کینیڈا منتقل کیا گیا۔ وہا اس کو فوری طور پر asylum (سیاسی پناہ) مل گئی۔ حربیار مری ان دنوں وہیں تھا۔
پاکستان مخالف شخصیات کی سرپرستی کرنے والی عالمی تنظمیوں نے اس کو فوری طور پر دنیا کی سو بااثر ترین شخصیات میں شامل کیا جب کہ حال یہ ہے کہ پاکستان تو کیا بلوچستان میں بھی بہت کم لوگ اس کو جانتے ہیں۔ حتی کہ اس کی سوشل میڈیا فین فالوونگ بھی صرف چند ہزار تک محدود ہے۔ کریمہ بلوچ کو کچھ شہرت پی ٹی ایم نے ضرور دی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کے ذریعے۔
کریمہ بلوچ نے کینیڈا میں ایک بلوچ جوان کے ساتھ رہنا شروع کیا بعد میں اسی سے دوسری شادی کر لی۔ گمان غالب ہے کہ اس کو انڈین ایجنسیوں نے پول کھلنے کے ڈر سے مارا اور ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی۔
پہلا اس کو خاموش کرانا، دوسرا بلوچستان کی سرد ہوتی شورشوں کو ہوا دینا اور تیسرا انڈیا میں سکھ کسانوں کے عظیم الشان احتجاج سے دنیا کی توجہ ہٹانا۔

کریمہ کی طرح ایک فرزانہ مجید بھی ہے۔ جس کا بھائی ذاکر مجید بی اسی او آزاد کا سینیر وائس چیرمین تھا۔ وہ بلوچ لڑکوں کو مسلح جدوجہد (دہشتگردی) پر تیار کرتا تھا۔ فرزانہ مجید نقاب پہن کر ماما قدیر کے کیمپوں میں معصوم بہن بن کر بھائی کی تصاویر لیے کھڑی رہتیں۔ پھر اس کو بھی امریکہ بھیج دیا گیا۔ جہاں اس نے نقاب اتارا، گٹار اٹھایا اور شراب پی کر اپنی تصاویر وائرل کرنی شروع کر دیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں