مسنگ پرسنز کا رونا رونے والے سیاسی پارٹیوں کا سیکورٹی اداروں اور بلوچستان کے معصوم شہریوں کی شہادت پر خاموشی قابل مذمت ہے

Loading

تحر یر : چاکر بلوچ مسنگ پرسنز کا رونا رونے والے سیاسی پارٹیوں کا سیکورٹی اداروں اور بلوچستان کے معصوم شہریوں کی شہادت پر خاموشی قابل مذمت ہے بلوچستان میں ہمیشہ سیاسی پارٹیوں نے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استمال کرنے کی کوشش کی ہے ان سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ ادوار میں تعلیمی اداروں کو غنڈہ گردی کا اڈا بنا رکھا تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر یونیورسٹی اور کالجوں میں طلباء کو قومیت کے نام پر یا مفادات کے لئے لڑانا محمول بن چکا تھا استاتذہ کرام پر بدماشیاں کی جاتی تھی بی ایس او یا پی ایس او کے لڑکے استاد صاحبان کے جیبوں کی تلاشیاں لیا کرتے تھے سٹیڈی کے نام پر بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے غنڈہ ٹیکس لیا جاتا تھا جب سرکار نے تعلیمی اداروں میں سیکورٹی کا انتظام کیا تو ان سیاسی پارٹیوں کا بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں دھندا بند ہو گیا  یہی وجہ ہے انہوں نے دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی خاطر مسنگ پرسن کا واویلا شروع کر دیا جب یہ مسنگ پرسن افغانسان میں را ،موساد ،اور این ڈی ایس سے ٹرینگ حاصل کر کے بلوچستان میں معصوم شہریوں اور سیکورٹی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں اور جوانو کو شہید کرتے ہیں تو ان سیاسی پارٹیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ملک کو دونوں ھاتھوں سے لوٹتے ہیں اور جب اپوزیشن میں ہو تو مسنگ پرسن کو ایشو بنا کر سیاست کرتے ہیں بلوچ عوام اب با شہور ہو چکے ہیں ان کے ہر چال سے واقف ہے ان کو پتہ ہے یہ سیاسی پارٹیاں جن مسنگ پرسنز کا رونا روتے ہیں وہ بیرونی ممالک میں مزے لوٹ رہے ہیں انڈیا ان پر پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر رھا ہے ھم ان سیاسی پارٹیوں سے پوچھنے کا حق رکھنا ہیں کہ تمارا دوغلا معیار کیوں ہے کیا تم اس ملک میں نہیں رہتے ؟ کیا اسی ملک کا نہیں کھاتے ؟ اگر یہ درست ہے تو پھر بلوچستان کے معصوم شہریوں اور سیکورٹی اداروں کے جوانوں کی شہادت پر خاموشی کیوں ؟ اپنے مفادات کے لئے تم لوگوں نے ایک نیا طریقے کار اپنایا ہے دھشت گردوں کے لئے احتجاج میں خواتین کو آگے کیا جاتا ہے تم لوگوں کو معلوم ہے پاکستان میں خواتین کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کے احتجاج اور الفاظ کو صبر و تحمل سے برداشت کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے یہ دھشت گرد اپنے مفادات کے لئے خواتین کو فرنٹ لائن کے طور پر استمال کرتے ہیں ھم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں ان دھشت گروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لائی جائے تاکہ بلوچستان میں مکمل سکون ہو یہ دھشت گرد اپنے کو زندہ رکھنے کے لئے ایسی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں لیکن اس کا نقصان بلوچستان کے تمام بلوچ علاقوں کو ہو رھا ہے یہ تعلیم کے دشمنوں نے بلوچ قوم کو تباہی کے دھانے پر لاکر کھڑا کر دیا ہے آج بھی سردار اختر منگل کراچی کے جلسے میں مسنگ پرسن کا رونا رو رہا تھا ان سے کوئی یہ پوچھے یہ مسنگ پرسن اگر ہے بھی تو کیوں ہے بلوچستان میں 1 کروڑ 20 لاکھ کی آبادی میں یہ چند لوگ کیوں مسنگ ہے کیا باقی بلوچستان والے بلوچ نہیں ؟ کیا پنجاب میں رہنے والے 3 کروڑ 50 لاکھ بلوچ نہیں ؟ کیا سندھ کی دھرتی پر سیکڑوں سال حکومت کرنے والے بلوچ نہیں صرف ڈاکٹر مالک اور اختر مینگ کا چہانے والے بلوچ ہے ؟اب ان لیڈروں کو ڈبل اسٹینڈرڈ والے سیاست کو ترک کرنا چاہئے ورنہ ایک ایسا دن بھی آئے گا جب بلوچ عوام ان کا پھتروں سے استقبال کریں گے جناب اختر مینگل صاحب آپ کے بھائی اسد مینگل کے  ساتھ شہید ہونے والا نوجوا ن احمدشاہ کو بھی یاد کر لیا کریں اس کے بیوی بچوں کو کبھی جاکر پوچھا ہے وہ کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ،     

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں