لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کی انسرجنسی کے دوران بڑی تعداد میں لوگ لاپتہ کئے گئے ہیں۔ بلوچستان جیسی پیچیدہ اور نیم قبائلی سماج میں کئی گروہوں نے اس انسرجنسی کے دوران اپنے مخالفین کو بھی لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ کوئٹہ، خضدار سمیت بلوچستان کے کئی علاقوں سے اغواء برائے تعاون کے نام سے بھی درجنوں لوگ اغواء کئے گئے۔ بلوچستان میں بلوچ مذاحمتی تنظیموں نے بھی درجنوں لوگوں کو اغواء کیا جن کی لاشیں پھر کبھی واپس نہیں کی گئیں اور نہ ہی ان کو رہا کیا گیا۔ صرف ایسے لاپتہ افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہوگی جنہیں مسلح تنظیموں نے اغواء کیا اور اپنے اس عمل کی زمہ داری بھی قبول کی۔ مختصر یہ کہ بلوچستان میں لوگوں کو لاپتہ کرنے میں کئی کردار متحرک رہے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے لاپتہ افراد کے نام پر تحریک چلائی ہے انہوں نے ان تمام کرداروں کو نظر انداز کردیا۔ بلوچ کا نام استعمال کرکے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اُن لوگوں کا تذکرہ کبھی بھول کر بھی نہیں کیا گیا جو مسلح تنظیموں کے ہاتھوں اغواء ہوئے ہیں۔ اس متنازعہ اور جانبدار کردار کی وجہ سے انسانی حقوق کے علمبردار اشخاص اور تنظیموں ناقابل بھروسہ بن چکی ہیں۔ ان تنظیموں میں سرفہرست وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم ہے جسے ماما قدیر بلوچ نے انتہائی متنازعہ بنایا ہوا ہے۔بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، جسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ماما قدیر نے کئی ایسے افراد کو بھی لاپتہ قرار دیا ہے جو کہ افغانستان میں موجود ہیں یا ایسے قصے گھڑے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آج بھی ماما قدیر کے کیمپ میں زرینہ مری کے نام سے ایک پوسٹر موجود ہے جو کہ ایک من گھڑت نام اور خیالی قصہ ہے۔ ماما قدیر دعویٰ تو پر امن رہنے اور انسانی حقوق کی نمائندگی کی کرتے ہیں لیکن جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ تشدد کو جواز فراہم کرنے کے لئے دلیلیں گھڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ ماما قدیر نے ایک انٹرویو میں انڈین حکومت سے یہ مطالبہ تک کردیا کہ انڈین حکومت بلوچوں کو اسلحہ فراہم کرے، اب کوئی اس بندے سے پوچھے کہ اسلحہ لیکر وہ کونسا مسنگ پرسنز کے لئے تحریک چلائیں گے یا انسانی حقوق کی وہ کونسی حفاظت ہے جس کے لئے موصوف ایک ایسے ملک کے سربراہ سے مطالبہ کررہیں جو کہ خود انسانی حقوق کی پائمالی کی وجہ سے دنیا میں بدنام ہے۔ جب ایک شخص اس حد تک غیرزمہ دار ہے تو اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ انسانی حقوق کے لئے کوئی کردار ادا کرے گا یقینا ایک خام خیالی ہے۔
انسانی حقوق صرف کسی مخصوص گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے نہیں ہوتے بلکہ ہر انسان یکساں طور پر آزاد رہنے کا حق رکھتا ہے۔ بلوچستان میں اُن بدقسمت بلوچوں کے بارے میں کبھی آواز نہیں اٹھایا گیا جو کہ ان تنظیموں نے جبراََ لاپتہ کردئیے ہیں۔ وہاں ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور بہت سے گمشدہ افراد کی ویڈیو بھی شائع کی گئی ہیں جن سے تشدد کے بعد اپنی مرضی کا بیان لیا جارہا ہے۔ اس طرح کی ویڈیوز ان تنظیموں نے اپنے آفیشل ویب سائٹس پر شائع کئے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ان تنظیموں سے جواب طلبی کرے کہ یہ لاپتہ افراد کہاں اور کس حال میں ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی تنظیم اپنی جانبداری چھوڑ کو تمام لاپتہ افراد کی رہائی کا مطالبہ کرے۔ بلوچستان بھر سے جن لوگوں کو مسلح تنظیموں نے لاپتہ کردیا ہے وہ بھی انسان ہیں اور بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، اگر وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز واقعی انسانی حقوق کی تنظیم ہے تو یہ اس کی زمہ داری ہے کہ وہ اُن تمام لاپتہ افراد کی بھی ایک فہرست بنا دے جو تنظیموں نے لاپتہ کئے ہیں۔ ساتھ ہی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ماما قدیر جیسے متنازعہ فرد کو اس تحریک سے الگ کردے، کیوں کہ ماما قدیر کے بیانات اور انٹرویوز اور اس کے سوشل میڈیا کے پوسٹ کسی صورت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پرامن نعروں کی نمائندگی نہیں کرتے۔