فیس بک عربوں کے خلاف اسرائیل کا ہتھیار

Loading

اگر آپ اس سوچ کا شکار ہیں کہ سوشل میڈیا آپ کی تفریح طبع کے لیے ہے یا آپ اسے استعمال کر رہے ہیں تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اصل میں سوشل میڈیا آپ کو استعمال کر رہا ہے۔ ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے۔ نیٹ ورکنگ کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حالیہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع میں اسرائیل کی طرح سوشل میڈیا نے بھی ننگی جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ دو پلیٹ فارم خاص طور پر اسرائیل کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتے رہے ان میں ایک فیس بک تھا اور دوسرا انسٹا گرام۔ کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ہزاروں اکاؤنٹس کو بند کیا گیا یا ان کی پوسٹوں کو ہٹا دیا گیا۔ فیس بک اور اس سے وابستہ پلیٹ فارمز اسرائیل کی ایک بٹالین کے طور پر سامنے آئے۔ اس سے پہلے کہ حالیہ لڑائی میں ان پلیٹ فارمز کا ذکر کیا جائے پہلے ماضی کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے عرب بہار لائی گئی تھی اور سہانے سپنے دکھا کر حکومتوں کو الٹ پلٹ کر دیا گیا تھا۔ اب وہ ممالک اور ان کے عوام تبدیلی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ کسی بھی ملک نے قابل ذکر ترقی نہیں کی۔ چین اور دوسری ممالک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اگر محدود کیا ہے اور اپنے پلیٹ فارمز بنائے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان پلیٹ فارمز کو سامراجی طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔

یہ 2006 کی بات ہے کہ ایک میڈیا نیوز آؤٹ لٹ theintercept.com نے فیس بک کے حکام کی اسرائیل کے لیے کام کرنے کی سٹوری شائع کی اور ساتھ میں کچھ سوالات بھی اٹھائے اور یہ کہا ہے کہ ہم نے فیس بک سے رابطہ کر کے ان سوالات کا جواب دینے کے لیے کہا ہے جب بھی جواب آیا ہم اس سٹوری کو اپڈیٹ کر دیں گے مگر انہیں فیس بک کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس کہانی کے مطابق فیس بک نے ویت نام کی لڑکی کی ایک تصویر کو اس بنیاد پر ہٹانا شروع کیا کہ وہ ننگی تصاویر کی اشاعت کے خلاف ہے اور ڈیلیٹ ہونے والی پوسٹوں میں ناروے کے وزیراعظم کی پوسٹ بھی شامل تھی۔ ناروے کے وزیراعظم نے سنسر شپ کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ تصویر پوسٹ کی تھی۔ اس سارے واقعہ نے لوگوں پر یہ بات واضح کر دی کہ اب فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل اس  بات کا فیصلہ کرے گا کہ وہ ہمیں کیا دکھائے گا؟ اس ویب سائٹ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی طرف سے جاری ہونے والی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیس بک اور اسرائیل کی سرکار نے مل کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ سوشل میڈیا نیٹ ورک پر غیر قانونی مواد اور قابل نفرت مواد کا جائزہ لیا جائے اور سوشل میڈیا نیٹ ورک اس مواد کو ہٹائے جس کے بارے میں اسرائیل کی سرکار یہ بتائے گی کہ وہ شر انگیز اور قابل نفرت ہے۔ اس حوالے سے فیس بک کے ساتھ مل کر قانونی تحفظ دینے کی بات کی گئی۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل کی سرکار کو فیس بک کے مواد کو سنسر کرنے کا حق دے دیا گیا۔ فیس بک اور اسرائیل سرکار کی یہ مشترکہ سنسر شپ مسلمانوں، عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف تھی۔ اس برس اسرائیل نے 158پوسٹوں یا اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے لیے کہا اور ان میں سے 95 فیصد پر فیس بک نے عمل کر دیا۔ اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ فیس بک اور اسرائیل نے مشترکہ طور پر اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ دیکھیں کہ دہشت گردی کی تعریف کیا ہے اور اسرائیل کے قبضے کے خلاف فلسطینیوں کی کون سی پوسٹ قابل نفرت یا قابل مواخذہ ہے۔ حالیہ بحران میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ آسمان سے کی جانے والی بمباری سے مرنے والے معصوم بے گناہ فلسطینی گناہ گار اور دہشت گردی کے زمرے میں آئے جبکہ اسرائیل کی بمباری کو اپنے دفاع کا حق قرار دیا گیا۔ یہ وہی فیس بک ہے جس نے 2014 میں اسرائیل کے لوگوں کی جانب سے عربوں کو موت کے گھاٹ اتارو کی مہم کا آغاز کیا اور اس کے حق میں ہزاروں پوسٹیں لگائی گئیں اور جگہ جگہ عربوں پر حملے کیے جانے لگے۔ اس وقت بھی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو ہی تھے۔ فیس بک پر اس مہم میں وہ اور ان کا کابینہ کے ارکان مہم چلا رہے تھے۔

حالیہ لڑائی میں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ فیس بک پر ایک پیج Jerusalem Prayer Team کے نام سے شروع ہوا اور دیکھتے دیکھتے ہی اس کے فالوورز کی تعداد کئی ملین ہو گئی۔ اس پیج کو اسرائیل کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ فیس بک نے آٹو لائیک کے تحت چند منٹوں میں اس فیس بک پیج کے کئی ملین یوزر بنا کر اسرائیل کے پیغام کو پھیلانا شروع کر دیا۔ یہ کسی کی شرارت نہیں تھی بلکہ فیس بک کا اسرائیل کے ساتھ مل کر کام کرنے کا طریقہ تھا اور ہے۔ فیس بک کے ساتھ ساتھ انسٹا گرام اور واٹس اپ نے بھی یہ کام شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ یہ دونوں پلیٹ فارم بھی اب فیس بک کی ملکیت ہیں۔ الیگردم میں کسی غلطی کا بہانہ بنا کر فیس بک اسرائیل کے لیے کام کرتا رہا۔ فلسطین کے وزیر اعظم سے ہونے والی ملاقات جو چند دن پہلے ہوئی ہے اس میں فیس بک کی انتظامیہ نے معذرت کی ہے کہ سسٹم میں خرابی کی وجہ سے حالیہ لڑائی کے دوران فلسطینیوں کی پوسٹیں بلاک ہوتی رہیں۔ فیس بک نے وہ تمام پوسٹیں ہٹا دیں جن میں الاقصیٰ مسجد کا ذکر تھا اسی طرح انسٹا گرام نے بھی الاقصیٰ کے نام والی تمام پوسٹوں کو بلاک کر دیا۔ بہانہ یہ بنایا گیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں خرابی کی وجہ سے یہ ہوا اور سسٹم یہ سمجھتا رہا کہ الاقصیٰ ایک دہشت گرد تنظیم ہے جسے بلاک کرنا ضروری ہے۔ فیس بک نے چوبیس گھنٹے کام کرنے والا ایک آپریشنل سنٹر قائم کر رکھا تھا جو سسٹم کو مانیٹر کر رہا تھا اور یہ دیکھ رہا تھا کہ کمیونٹی گائیڈلائنز پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ اس کی آڑ میں فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کی تصاویر، ویڈیوز اور موقف کو ہٹایا جانے لگا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ فیس بک نے بہت کم مواد فلسطین کے حوالے سے شائع کرنے کی اجازت دی، اس وقت جو مواد سوشل میڈیا پر موجود ہے وہ سارے کا سارا ٹوئٹر کے ذریعے لوگوں تک پہنچا ہے۔ فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کے یہودی ہونے کے حوالے سے کسی کو شک نہیں ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک سٹوری کے مطابق ان کا نام یہودیوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جو دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ مارک زکر برگ نے فیس بک کو استعمال کرنے کی شرائط میں یہ بات بھی شامل کی ہے کہ اگر ہالوکاسٹ کے حوالے سے آپ یہودیوں کے موقف کے خلاف ہیں تو آپ اسے استعمال نہیں کر سکتے۔ فیس بک کو استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کے موقف کی حمایت کریں۔ فیس بک نے اس بات کو بھی نفرت کے زمرے میں شمار کیا ہے اگر کوئی یہ بات کرے کہ اس دنیا کو یہودی کنٹرول کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سوشل میڈیا اور فیس بک کو ایک مخصوص موقف کو پروموٹ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ آپ فیس بک کو استعمال کر رہے ہیں یا فیس بک آپ کو استعمال کر رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں