حصہ 02
علامہ اقبالؒ کے بارے میں ابتدائی بات کردوں کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں اقبال سے نسبت رکھتا ہوں مجھے یہ بڑا فخر محسوس ہوتا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے قد کے برابر پاکستان کا کوئی اور شاعر، ادیب، تجزیہ نگار اور سیاسی مفکر نہیں ہے جس کو اتنی عالمی پذیرائی ملی ہو جتنی علامہ اقبال کو ملی ہے- آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے اندر اشتراکی ادبی تحاریک کا پچاس کی دہائی سے لے کر اَسّی کی نصف دہائی تک بڑا زور تھا جنہیں اُس وقت کے بائیں بازو کی تحاریک کہا جاتا تھا- اُن کا پاکستان میں بڑا چرچا اور اجارہ تھا ان کے پاس بڑے ذرائع، روابط، فنڈنگ اور عالمی امداد تھی یعنی کوئی انہیں تسلیم کرے یا نہ کرے اُن کے نام لینن ایوارڈ تو پکا تھا-لیکن اس کے باوجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شاعر کے دنیا میں اتنے تراجم نہیں ہوئے جتنے علامہ اقبال کی شاعری کے ہوئے ہیں-یورپ کی ہر بڑی زبان میں اقبال کے تراجم ہوئے ہیں- پولسکی ہو، پرتگالی ہو، سپینش ہو، اطالوی ہو، انگلش ہو، انگلش میں تو بذات خود اقبال نے لکھا ہے، جرمن ہو، فرانسیسی ہو، لاطینی ہو، پھر اسی طرح آپ ایشیاء میں دیکھیں روسی،چینی، جاپانی، کوریئن، ملائ، انڈونیشیائ، عربی، فارسی میں تراجم موجود ہیں بلکہ فارسی میں تو اُنہوں نے خود بھی لکھا اور آپ خطہ بہ خطہ تحقیق کریں، نظر دوڑائیں آپ ہر زبان میں اقبال کو پائیں گے –
اقبال وہ واحد شاعر ہے جس کےپیغام کا سرائیکی، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، تامِل، بنگالی اور ہندوستان میں بولی جانے والی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا- جس سے اقبال کی فکر کی پذیرائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے-فکرِاقبال کی آفاقیت اور عالمگیریت کے؛ لوگ قائل بھی ہیں اور اس سےاستفادہ بھی کرتے ہیں-
پاکستان میں جتنی بھی غیر ملکی شخصیات آتی ہیں؛ جن میں حالیہ رجب طیب اردگان (ترکی کےصدر)، شی جن پنگ (چائنہ کے صدر) نے پاکستانی پارلیمنٹ سےخطاب کیا انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کلام اقبال سے کیا-اسی طرح عالمی لیڈر؛ جب بھی پاکستان پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہیں اقبال کے کلام سے اپنی بات شروع کرتے ہیں- سوال یہ ہے کہ ڈپلومیٹک زبان میں اس کا کیا مطلب و تعبیر ہےکہ ایک غیر ملکی سفیر اور وفد پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کلامِ اقبال سے کرتا ہے؟
آگے جاری ہے ۔۔۔