حصہ : 06
اقبالؒ نے اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو رد کیا، اپنی معجز بیانی سے سرمایہ داری، جاگیر داری کی جڑیں اکھیڑ دیں- پھر اشتراکیت پہ بھی وہی تنقید کی جوانہوں نےسر مایہ دارانہ نظام پر کی-
اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا معاشی آیئڈیل کیا ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کی ایک نظم جس میں بڑے کمال کا تغزل ہے؛ اس کے تین اشعار پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ اس نظم میں علامہ نے دونوں (اشتراکیت اور سرمایہ داری)پہ تنقید کی ہے-بقول اقبالؒ:
ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہرِ یاری ہے قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگرجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ کاری ہے |
یہاں سرمایہ داری سے مراد سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ سرمایہ داری سےمراد نازِشیریں ہے اور نازِ شیریں سے مراد ہوسِ دولت ہے- اقبال اپنے آ یئڈ یل کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک متبادل خیال موجود ہے یعنی ان دونوں میں جو اچھائی ہےوہ اس اچھائی کوچن لیتاہے- اس پہ اقبال کا ایک وضاحتی خط ہے جس میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ:
’’مجھ پہ یہ الزام لگا کہ میں اشتراکیت پسند ہوں تو میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں- یعنی کسی صاحب نے کسی اخبا رمیں میری طرف بالشویک خیالات منسوب کئے چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے؛[1]اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے- مَیں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل اور براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن مجید نے تجویز کیا ہے – اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب اعتدال سے تجاوز کر جائے تو وہ دنیا کیلئے ایک قسم کی لعنت ہے – لیکن دنیا کو اس مضمرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں-قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانونِ میراث ، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے- فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابلِ عمل بھی ہے- روسی با لشوازم یورپ کے عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبر دست ردِعمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی با لشو ازم دونوں افراط اورتفر یط کا نتیجہ ہیں- اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی ہے جس کا مَیں اوپر اشارۃً ذکر کر چکا ہوں ‘‘-
اقبال علیہ الرحمہ کی اِس جامع تحریر کے بعد کسی قسم کی غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی اور یہ سمجھنا از حد آسان ہو جاتا ہے کہ اقبال کا ’’اکنامک آئیڈئیل‘‘ کیا ہے – ضربِ کلیم کے حصہ ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب ‘‘ کی پہلی نظم ہی اشتراکیّت پہ تبصرہ کی صورت میں ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کو اشتراکیّت کے سامنے دامنِ خیرات پھیلانے کی بجائے قرآن میں ڈوبنے کی دعوت دی ہے اور بتایا ہے کہ جس معاشی مساوات کا غوغہ روس نے آج بپا کیا ہوا ہے معاشی مُساوات کا اِس سے بہت عظیم ماڈل 1300 سال قبل اسلام نے عطا کیا ہے :
قراں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مُسلمان اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار جو حرفِ ’’قُل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمو دار |
اِقبالؒ کا آئیڈیل؛ اسلام کا تصورِ معیشت ہے اور اقبالؒ کا اپنا علی گڑھ میں دیا گیا مشہور لیکچر ’’ملتِ بیضاء پہ ایک عمرانی نظر‘‘امت مسلمہ کے عمرانی مطالعہ کے تناظرمیں ہے- جس کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے؛ جسےاقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے- بالخصوص اکنامکس کے طالب علم کو یہ ضرور پڑھنا چاہیے- اس کے علاوہ اقبال نے اسلام کے اصُولِ معیشت کو بہت زیادہ نہیں لیکن اشاروں کنایوں میں اپنے باقی لیکچرز میں بھی بیان کیا ہے-کلام اور مکاتیب میں کئی جگہ پہ اقبال سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت کی بجائے اسلام کے متوازی نظام کو آئیڈیل بتاتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے وجود میں بنیادی طور پہ دولت کی ہوس کو ختم کرکے قناعت اور تطہیر پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان خود کو دولت کی پرورش میں اُس سطح تک نہیں لےجاتا جہاں دولت کی ہوس مٹانے کیلئے بنی نوعِ انسان کو ایک بالکل فضول قسم کی چیز سمجھا جائے کہ جہاں انسان مر رہے ہوں تو آپ کیلئے آپ کی معاشی ضروریات کے مقابلے میں وہ ظلم کی چکی میں پستے انسان کوئی معنی نہیں رکھتےہوں –
میں اس پہ مختصراً! عصرِ حاضر سے دو تین مثالیں دینا چاہوں گا کہ کشمیر میں پچھلے ستر سال سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے ساری دنیا جانتی ہے لیکن اس مسئلہ پر انڈیا کو مغربی تجارتی بلاک کچھ نہیں کہتا، اقوام ِمتحدہ میں سے کچھ لوگ بولتے رہتے ہیں کیونکہ انسانی حقوق پہ بات کرنا ان کی ڈیوٹی ہے- اس کے علاوہ دیگر ممالک انڈیا کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟؟؟ اس لئے کہ انڈیا کے ساتھ اُن کا معاشی مفاد (Economic Interest) ہے-کیونکہ سرمایہ دار انہ نظام ہویا اشتراکیت ہو اس میں بھی بنیاد آپ کے معاشی تعلقات کی ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اگرہم انڈیا سے یہ بات کریں گےتوہماری معیشت اورتجارت ہندوستان کے ساتھ متاثر ہوگی-
آگے جاری ہے ۔۔۔