علامہ اقبال رحہ :سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

Loading

حصہ : 05

علامہ اقبال اور بچے
راز دان جزو و کل از خویش نا محرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

یعنی آدم اپنے سرمائےکی دوڑکے پیچھے آدمیت کا قاتل بن چکا ہے اور یہ شعر لوگوں کو تب سمجھ آیا جب’’اسٹالین آف یو ایس ایس آر‘‘نے سنٹرل ایشیاء کے انسانوں جن کی تعداد کچھ کے نزدیک تیس ملین سے زائد ہے؛کے خون سے ندیاں بہادیں- تیس ملین کا مطلب تین کروڑ ہے اس سے زائد انسان سنٹرل ایشیاء میں سٹالین کی ملٹری نے کچلے ہیں جس میں پورا قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان شامل ہے- اس پورے قہر آلودہ ماحول کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب سنٹرل ایشین اور تیموری ترکوں نے ’’یو ایس ایس آر‘‘ کوپلیٹ میں رکھ کر دیا تھا ؟ اور کیوں’’ یو ایس ایس آر‘‘ ان پرقبضہ کرنا چاہتا تھا ؟ کیا اپنے جی ڈی پی، اپنی بینکنگ گروتھ اور معاشی طاقت کے لیےکیا تھا؟ اگر نہیں –! تو پھر اس کے علاوہ کیا وجہ تھی؟

آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

اگر سرمایہ دارانہ نظام اسکندریت ہے تو اشتراکیّت بھی چنگیزیّت ہے ، بلکہ اسٹالن خود چنگیزیّت سے بد تر استعارہ ہے انسانی قتلِ عام کا- اب یہ شعر پڑھیں اقبال کا :

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قُبا چاک

جاوید نامہ میں سیّد جمال الدین افغانی کی زبان سے’’اشتراک و ملوکیّت‘‘ والے حصہ میں جو کچھ اقبال نے کہلوایا ہے وہ بھی اِسی تقابل و موازنہ پہ دالّ ہے کہ ملوکانہ لسّی اور اشتراکی مکھن ایک ہی برتن کے خراب دودھ سے بر آمد ہوئے ہیں-

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس، آدم فریب
زندگی ایں را خروج، آں را خراج
درمیانِ ایں دو سنگ آدم زُجاج
غرق دیدم ہر دو را در آب و گِل
ہر دو را تن روشن و تاریک دِل

’’اِن دونوں میں رُوح بے قراری اور بے سکونی کا شکار رہتی ہے ، یہ دونوں خُدا کے منکر اور انسانیت کیلئے دھوکہ ہیں- اشتراکیّت کا مقصدِ زندگی ہر چیز میں فساد بپا کرنا ہے جبکہ ملوکیت کا ہر چیز میں ٹیکس وصولنا، اِن دو پتھروں کے درمیان انسان شیشہ کی طرح پِس رہا ہے- میں نے ان دونوں کو مادہ پرستی میں غرق دیکھا ہے ، ان دونوں کا ظاہر روشن جبکہ دِل سیاہ ہیں‘‘ –

اسی طرح ’’پیام مشرق‘‘میں لینن اور قیصر کے درمیان جو مکالمہ ہے اس میں لینن مارکسسٹ اپروچ یعنی اشتراکیت کا نمائندہ ہے اور قیصر روایتی سرمایہ دارانہ اپروچ کا نمائندہ ہے- یہ مکالماتی نظم اقبال کے تصورات کی بھر پور اور بہترین عکّاس ہے –

لینن بڑے فاتحانہ اور متفاخرانہ لہجے میں اپنی بڑائی جتلاتے ہوئے قیصر کو کہتا ہے  کہ ہم نے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کو بچا لیا ہے، زارِ روس اور قیصرِ روم کا فریب کچلا جا چکا ہے- مزدوروں نے سرمایہ داروں کی قمیص نوچ ڈالی ہے ، پیرِ کلیسا کی چادر اور شاہوں کی قبا بھی پھاڑ ڈالی ہے –

جسے اُردو میں اقبال نے کہا تھا کہ :

اس سے بڑھ کہ اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب

لینن کی گفتگو کے بعد اقبال قیصرکے کردار کو سامنے رکھ کر اشتراکیّت پہ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :

گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست!
طواف اندر سرشتِ برہمن ہست

بے جان بتوں کے ناز و عشوہ کا کیا گناہ؟ طواف تو برہمن کی سرشت میں شامل و داخل ہے – اسی جواب میں آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ نئے خُدا تراشنے کا جنون جس کے ذہن میں ہو تو وہ یہی کرتا رہے گا –

دما دم نو خداونداں تراشد
کہ بیزار از خدایانِ کہن ہست

یعنی انسان کی فطرت ہے کہ وہ نئے سے نئے بت تراشتا رہتا ہے-پہلےسرمایہ داری کا بت تھا اب انسان نے اشتراکیت کا بت بھی تراش لیا ہے؛ کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا وہ بھی بت ہے، یہ بھی بت ہے- پھر آگے کہتے ہیں کہ:

اگر تاجِ کئی جمہور پوشد
ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست

جمہور یعنی اگر مزدور خسرو بادشاہ کا تاج پہن لےتو پھر بھی انجمن میں سرمائے کی ہوس تو اسی طرح موجود ہے- مزدور بھی اسی ہوس میں لڑ رہاہےجس ہوس میں سرمایہ دارلڑرہاتھا-

نماند نازِ شیریں بے خریدار
اگر خسرو نباشد کوہکن ہست

آگے جاری ۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں