حصہ : 04
بقول خضر بزبانِ اقبال :
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر! بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے خضر کا پیغام کیا؟ ہے یہ پیام کائنات! اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مُسکرات مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے |
یعنی مزدور طبقہ کے لئے یہ پیغامِ خضر بیان کیا جارہا ہے جو کہ اقبال کی سرمایہ دارانہ نظام پر نہ صرف تنقید تھی بلکہ ایک کاری ضرب تھی-اقبال کی ان نظموں سے اِس تاثر نے جنم لیا کہ اقبال اشتراکیت کےقائل تھے-اس پر اقبال کو اس تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ ’’اقبالؒ تو اُس عہد میں تھے جب مارکسسٹ انقلاب برپا ہو رہے تھے لہٰذا اقبال تو مارکسسٹ تھے اور یہ ساری اشتراکی اپروچ ہےجس کےتحت علامہ اقبال یہ ساری باتیں کررہے ہیں‘‘-
اِنقلاب کے متعلق بھی اقبال کے اشعار پہ سُرخوں نے خوب حاشیے چڑھائے اور اُنہیں اپنے نُقطۂ نظر کے حق میں خوب استعمال کیا- فکرِ اِقبال کے ساتھ یہ المیّہ ہر سمت سے پیش آتا رہا ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے تربیّت یافتہ محققین نے پہلے اقبال کو کافر ثابت کرنے کی کوشش کی، پھر شکست کھانے کے بعد اقبال کی بھر پور ’’طالبانائزیشن‘‘ کی ، انقلابِ ایران کے بعد اقبال کو پاسدارِ انقلاب کے طور پہ پیش کیا گیا، صُوفیوں نے اقبال کو متولّی ثابت کیا، اشتراکیوں نے اقبال کو مارکس کا پیرو کار بتایا-
یہ المیے اپنی جگہ، حسبِ موضوع مَیں آپ کو یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ علامہ اقبال قطعاً مارکسسٹ نہیں تھے – انہوں نے کارل مارکس کو پڑھا اور دیگر فلاسفرز اور ماہرینِ معاشیات سےزیادہ کارل مارکس کا فہم رکھتے تھے- لیکن اس کا يہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ علامہ اقبال کارل ماکس کے قائل تھےیا علامہ اقبال نے کارل ماکس کو بطور اپنے آئیڈیل کے لیا ہے-ہم وہ لمحہ بھول جاتے ہیں جہاں سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت بھی علامہ اقبال کے ہدفِ تنقید پہ ہے-کئی حوالوں سے اقبال ان دونوں کو ایک ہی ٹہنی کے دو بد ذائقہ پھل سمجھتے ہیں-اقبال بتاتے ہیں کہ اشتراکیّت اور سرمایہ داری میں صرف اصطلاحات اور نعروں کے الفاظ کا فرق ہے حقیقت میں یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں- اشتراکیّت اور سرمایہ داری دونوں کا مقصود طاقت کے بل بوتے پہ دوسروں کی دولت چرانا اور ہتھیانا ہے (اُسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آدم )-نعرہ مزدور کا لگایا جائے یا کسی ایمپائر کا؛ یہ معنیٰ نہیں رکھتا-
کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے یہ وجُودِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے مُنحصر |
مجلسِ مِلّت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر |
اِن دونوں نے اقوام کو روندا، لوٹا اور برباد کیا ہے ، کمزوروں کی دولت ہتھیائی اور اُن کا استحصال کیا، قتلِ عام کیا، بنی نوعِ انسان کو ذلیل و رُسوا کیا- بقول اقبالؒ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام دونوں مخصوص طبقہ کا تحفظ ہے ، دونوں کا اصل الاصول زر پرستی اور ہوسِ دولت ہے – کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، حقدار سے رقم چھین کر بینک کے ذریعے سرمایہ دار پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہے اسی طرح اقبال کے نزدیک اشتراکی نظام بھی حقدار سے رقم چھین کے مزدور پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہےجس سے حقدار کا حق دونوں ہی چھین کھاتے ہیں – ان دونوں کا نقص اور مرض یہ ہے کہ دونوں انسان کی انسانیت کا احترام سکھانے کی بجائے شکم کی پرورش سکھاتے ہیں – اس لیے ان دونوں میں صفتِ ہوس پرستی کا اُبال اور وبال دیکھتے ہوئے اقبال سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت کو بھی ردّ کرتے ہیں، اس کا ابطال کرتے ہیں –
آگے جاری ہے ۔۔۔