علامہ اقبال رحہ :سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

Loading

حصہ : 03

میرے نزدیک ڈپلومیٹک زبان میں اس کی تاویل و تعبیر یہ ہے کہ وہ لیڈر اس قوم کو بتا رہا ہے کہ :

’’ہمیں معلوم ہےکہ آپ نے اپنے نزدیک جو ثقافتی و سیاسی تاریخ میں درجہ بندی بنائی ہیں اُن میں درجۂ اول پر اقبالؒ کا اسم ہے- ہم یہ جانتے ہیں کہ اقبال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اقبا ل نے آپ کو آئیڈیالوجی اور فکر دی، نظریہ اور ملک کا تصور دیا ہے‘‘-

اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جن کے ہاں اقبال پہ بڑا سنجیدہ علمی و تحقیقی کام ہوا ہے-

’’اقبال ز گلوبل رکگنیشن‘‘ ایک الگ موضوع ہےجس کے لئے بہت طویل وقت درکار ہے- میں اس پہ صرف تعارفی الفاظ کہنا چاہتا تھا تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ہم کسی عام آدمی کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسی شخصیت کے تصورات و نظریات کا تذکرہ کر رہے ہیں جس کو دنیا تسلیم کرتی ہے-

اقبال کے تصورِ معیشت پہ روشنی ڈالی جائے تو اقبال کے ذوقِ معاشیات کے متعلق علمی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ عوام میں تعلیمی نصاب کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ اقبالؒ مغرب گئے، وہاں اُنہوں نے سیکھا اور پڑھا، پھر وہاں سے جو سیکھا واپس آ کر یہاں پڑھانا شروع کیا تو وہ اقبال کے معاشی تصورات بن گئے-

آپ کامرس سے ، اکنامکس کی ایک برانچ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کویہ جان کر خوشی اور حیرت ہوگی کہ علامہ اقبال اس خطہ کے وہ پہلے مصنف ہیں جس نے از خود اکنامکس اور اقتصاد پر اُردو زبان میں پہلی کتاب لکھی- جس کا نام ’’علم الاقتصاد‘‘ہے جوکہ 1900ءمیں شائع ہوئی- کچھ عرصہ قبل اس کو دوبارہ شائع کیا گیا ہے-الغرض! اردو زبان میں اکنامکس پہ لکھی گئی یہ پہلی کتاب تھی جو علامہ اقبال نے لکھی تھی-

لہٰذا اقبال نے ویسٹ میں جانے سے پہلے اقتصادیات کا مطالعہ کرنا شروع کیا-حالانکہ اس کتاب میں اقبالؒ کے آئیڈیاز اتنے مشہور نہیں تھے لیکن میرے اپنے لیے حیرت کی بات تھی کہ اقبالؒ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کتاب میں اکنامکس کو ڈسکس کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی تائید کی- اگر آپ اپنے معاشی مسئلہ کوحل کرنا چاہتے ہیں توآپ کو اپنے معاشرتی پہلو پہ غور کرنا پڑےگا- ’’مسدس ِ حالی‘‘ میں الطاف حسین حالی نے بھی اس نقطہ ٔنظر کو سپورٹ کیا ہے – بہرحال یہ اقبال کی تحقیق ہے اور یہ حالی کا نقطہ نظر ہے جس کو ایک حوالہ کے طور پہ بیان کیا گیا ہے-

چونکہ 1900ء اقبالؒ کا ابتدائی دورتھا لیکن اقبال کا کئی اعتبارات سے اصل دور 1908ء کےبعد شروع ہوتا ہے جو اکثریت کیلئے سورس آف انسپائریشن ہے؛ جس سے عوام بہت کچھ سیکھتی اور اخذ کرتی ہے- لیکن اس کتاب کےدیباچہ میں اکنامکس کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے علامہ نے کہا کہ موجودہ زمانےمیں جو اقوام اپنی اجتماعی معیشت بہتر بنانے کے لئے سوچ بچار نہیں کرتیں وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جائیں گی حتی ٰ کہ اُن کا زندہ رہنا بھی محال ہوجائے گا-حالانکہ علامہ اقبال شاعری، فارسی، اردو، عربی ادب کے طالب علم تھے لیکن اُن کی زیادہ دلچسپی کا موضوعِ سیاست بھی اُس طرح سے دلچسپی کا حامل نہ تھا جس طرح سےمعیشت کا تھا- اقبال کے نزدیک معیشت کو پڑھے اور اسے اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائے بغیر آپ ترقی نہیں کر سکتے- کیونکہ علامہ اقبال جس عہد میں زندہ تھے اس دور میں دُنیا میں دو معاشی تصورات کا زبردست ٹکراؤ تھا- ایک مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظریہ تھا اور دوسرا کارل مارکس کا نظریہ جو کہ ایک ’’Revolution‘‘ کی صورت میں روس میں برپا ہوا جسے لینن نے لیڈ کیا اور وہ دنیا میں آگے پھیلا- جس کی زد میں انڈیا کے بہت بڑے بڑے لیڈرز آتے ہیں جو اسےتسلیم بھی کرتے ہیں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہیں- الغرض! دنیا کا کوئی خطہ اس سے بچا نہیں ہے-

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وُسعتِ اَفلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار

یہ اشعارابلیس کی مجلس شوریٰ سے ہیں جن میں ابلیس کا مشیر دوسرے مشیر کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم تو اشتراکیت کو ایک قلیل سے مشتِ غبار سمجھتے تھے لیکن یہ تو وسعتِ افلاک پہ چھا گئی ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے- آپ کے علم میں ہوگا کہ چند سال پہلے 2008ء میں جب اکنامک ’’Recession‘‘ شروع ہوا تویہ تحریک ’’Occupy wall street‘‘امریکہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی اور ابھی بھی امریکہ، یوکے اور دیگر ممالک میں اس تحریک کے سرگرم کارکن موجودہیں- مجھے حال ہی میں لندن میں کارل مارکس کی قبر دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں عیسائیوں کے قبرستان میں باقی لوگوں کی قبروں پر صرف عیسائی لوگ اس وقت ہی آتے ہیں جب وہاں کوئی ان کا مذہبی تہوار ہوتا ہے اس کے علاوہ بہت کم لوگ ہیں جو یہاں آتے ہیں-لیکن واحد قبر کارل مارکس کی ہےجس کے لیےروزانہ گیٹ کھولنا اور بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ اس کی قبر دیکھنے آتے ہیں- بات کا مقصد یہ ہےکہ معیشت کی دنیا میں آج بھی اُس کا تاثر زندہ اور تابندہ ہے- یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں جو مارکسسٹ تحاریک ہیں بلکہ تھیں وہ دم توڑ چکی ہیں اور اُن کا اثر باقی نہیں رہا –

اقبال کے نزدیک سرمایہ داری کی بحث بڑی دلچسپ ہے – اولاً آپ کےعلم میں ہے کہ اقبالؒ نے سرمایہ دارانہ نظام کو بڑے پُر زور طریقہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے- جس کا ادراک ہمیں اقبال کی کچھ مشہور نظموں سے ہوتا ہے- اقبال کی مشہور فارسی کتاب ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں اقبال کے اس نقطۂ نگاہ پہ ایک پورا باب ’’نقشِ فرنگ‘‘ کے نام سے ہے- اُس میں بالخصوص ایک نظم جس کا عنوان ’’صحبتِ رفتاگان در عالمِ بالا‘‘، ’’عالمِ بالا میں کچھ ارواح آپس میں ملاقات کرتی ہیں‘‘-یعنی اقبال کی دنیامیں جو کچھ ہو رہا ہے ان حالات و واقعات پروہ ارواح کے درمیان مکمل ایک مکالمہ ہے جس میں فرانسیسی فلاسفرز اگسٹس کومٹ، لینن اور قیصرولیم شامل ہیں- اسی طرح قسمت نامہ سرمایہ دار اورنوائے مزدور ہے اور اس کے علاوہ دیگر نظمیں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں – جاوید نامہ میں بھی یہ موضوع جا بجا پھیلا ہوا ہے ، خاص کر فلکِ عطّارد کی سیر کے دوران گفتگو کا زیادہ تر رُجحان اِسی جانب ہے- زبورِ عجم کی کئی غزلیں اِن تصورات سے لبریز ہیں-یوں تو اُردو کلیّات بھی بھری پڑی ہے لیکن ان افکار سے خاص طور پہ ارمغان حجاز اردو میں ابلیس کی مجلس ِ شوریٰ اس سلسلے میں سرِ فہرست اہمیت کی حامل ہے – اسی طرح بالِ جبریل میں تین نظمیں ایک تسلسل سے ہیں – پہلی نظم کا عنوان ہے ’’لینن خدا کےحضور‘‘ دوسری ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور تیسری ’’فرمان ِ خدا فرشتوں کے نام‘‘ سے موسوم ہے- پہلی نظم میں لینن اللہ تعالیٰ کےحضور دُنیائے کُہنہ کی یہ شکایت کرتاہےکہ:

یہ علم یہ حکمت یہ حکومت یہ تدبر
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مُساوات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظرِ روز مکافات

یہ نظم اس قدر حقیقت کی عکاس ہے کہ اس کے اختتام کرتے ہی آپ کو شاعر کی کیفیت محسوس ہوتی ہے-اس کے بعد نظم ’’فرشتوں کا گیت‘‘کی بات کرتے ہیں جس میں فرشتے اللہ تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ :

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی

اِسی میں آگے اتنی زوردار ضرب ہے اقبال کی کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ، سرمایہ دارانہ مادیت کے پرخچے اُڑا دیئے اقبال نے :

دانش و دین و علم و فن، بندگیٔ ہوس تمام
عشق گرہ کُشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی

تیسری نظم فرمانِ خُدا ہے اس میں اقبال اظہار کرتے ہیں لینن کی دعا اور فرشتوں کا گیت سُن کے اللہ رب العزت اپنے جلال کا اظہار کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ اقبال کی بڑی خطرناک نظم سمجھی جاتی ہے جوکہ اس خوف سے کافی عرصہ تک سرکاری نشریات پر بند رہی کہ کہیں یہ کسی انقلاب کو لانے کا پیش خیمہ نہ بن جائے-

اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک ِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اقبال نے اپنی ان نظموں کے ذریعےجاگیرداری اور سرمایہ داری نظام پہ بڑی زور دار ضرب لگا ئی ہے- پھر اس کے بعد اقبال کی ایک اہم نظم ’’خضرِ راہ‘‘ ہے جو اقبال کے معاشی تصورات کو سمجھنے کے لئے بڑی ممد و معاون ہے- جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میری خواجہ خضر علیہ السلام سےبرسرِ راہ ملاقات ہوئی تو میں نے خضر علیہ السلام سے پوچھا زندگی کیا ہے؟ سلطنت کیاہے؟ سرمایہ داری کیا ہے؟ خضر علیہ السلام کے جواب کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں کہ :

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

آگے جاری ہے ۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں