تحریر
قاسم بلوچ
کلان راغے میں مارے جانے والے شہید نہیں بلکہ دھشت گرد تھے
صرف سوشل میڈیا میں بیان جاری کرنے سے کوئی دھشت گرد شہید نہیں بن جاتا ؟ بلکے اسلامی قوانین کے مطابق ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والا دھشت گرد کہلاتا ہے نوجوان نسل کو دھشت گردی کی طرف راغب کرنا بلوچ آذادی نہیں بلکہ بلوچ بربادی ہے گزشتہ روز کیچ
کلان راغے میں 4 دھشت گردوں کی ہلاکت سے یہ ثابت ہوا کہ یہ ملک دشمن اور بلوچ دشمن عناثر اپنی مقاصد پورا کرنے کے لیے بلوچ نوجوان کو لالچ اور برین واش کر کے دھشت گردی کی طرف مائل کرنے میں مصروف ہیں بلوچ قوم کو آج تک سمجھ نہیں آرھا ہے یہ ترقی کے دشمن کیا چہاہتے ہیں 72 سالوں سے اپنی اپنی دو اینٹ کی مسجد بنا کر بلوچ قوم کو باقی اقوام سے 100 سال پیچھے دکھیل دیا ہے یہ ملک اور بلوچ دشمن عناصر اپنے آقاوں کے کہنے پر بلوچستان میں ترقی کے عمل کو سبوتاج کرنے میں مصروف ہیں میں ان سے پوچھنا چہاتا ہوں روزانہ اپنے ہی بلوچ بھائیوں کو مارنا اور بم دھماکے کرنا کون سی آزادی ہئ آج جب تمام دنیا جدید ٹیکنالوجی کی طرف گامزن ہے نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں اپنے اپنے قوموں کے ترقی کے لیے راہ متعین کر رہے ہیں وہی چند ملک دشمن و بلوچ دشمن عناصر اپنے مفادات اور تسکین حاصل کرنے کے لئے نوجوان نسل کو دھشت گرد بنا رہے ہیں میں ان تمام بلوچ نوجوان کو کہنا چہاتا ہوں یہ اپنے بچوں کو یورپ کے بہترین درس گاوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں تمیں جھوٹے آزادی کے نعروں پر ٹھگا رہے ہیں ریاست ایک انگور کا دانہ نہیں کہ تم نے منہ ڈالا اور نگل گئے ریاست ایک پہاڑ ہے جو اس سے ٹکرائے گا خاک میں مل جایے گا تماری بقاء اسی میں ہے بلوچستان کی ترقی میں شامل ہو جاوں ورنہ اسی طرح مارے جاوں گے نہ جنازے اٹھے گے نہ نماز جناز ہو گا تمارے ماں باپ بہن بھائی بے آسرا ہو جائیں گے صرف یہ ریاست کے دشمن اور دھشت گرد اور سیاسی دوکاندار اپنی اپنی سیاست چمکاتیں رہیں گے اور تم نوجوان اسی طرح مرتے رہو گے تمارا نام نشان تک مٹ جائیگا اور سیاسی دوکاندار و ملک دشمن جھوٹے آزادی لیڈر اپنے بیرونی آقاوں سے تمارے نام پر یورپ اور شمالی امریکہ میں پیسے لیکر عیاشی کرتے رہیں گے