جب تک نشے کا مریض خود علاج کا خواہشمند نہ ہو آپ اسکی مدد نہیں کر سکتے

Loading

جب نشے کی بیماری اور دیگر علتوں سے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اہلخانہ کے وسوس اور اندیشے حقیقت کا روپ دھارنے لگتے ہیں۔ جب ان کی زندگی کے تار و پود بکھرنے لگتے ہیں اور بلانوش پھر بھی پینے سے باز نہیں آتا تو وہ اسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تکتے ہیں۔ بلانوش کے سامنے پوری طرح بے بس ہونے کے بعد وہ یہاں وہاں اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے لگتے ہیں۔ پچھلے 35 سال میں نشے کے مریضوں کے اہل خانہ کی مدد کرتے کرتے میری یہ رائے پختہ ہو گئی ہے کہ جب تک کوئی حقیقی بحران وجود میں نہیں آتا‘ اہلخانہ مدد کیلئے رجوع نہیں کرتے۔ لوگ انہیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جب تک مریض خود علاج کا خواہش مند نہیں ہوتا‘ آپ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ جب تباہ و برباد ہو گا تو دیکھا جائے گایہ ایک فرسودہ خیال ہے کہ برباد ہونے کے بعد ہی سدھرنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں مجبور ہو کر ایسا سوچنا تو کچھ نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے، شروع سے یہ ٹھان لینا کہ مریض برباد ہو گا تو خود ہی مدد کیلئے پکارے گا‘ کوئی مناسب بات نہیں، بربادی سے فلاح کی توقع رکھنا بے کار کی بات ہے، یہ خیال کہ تکالیف سے ہی مریض کا احساس جاگے گا۔ اذیت پسندی کے مترادف ہے۔ مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ تھوڑی بربادی کو بات چیت کی صلاحیت اور لفظوں کے خوبصورت استعمال سے مریض کے سامنے یوں پیش کیا جائے کہ وہ تھوڑا کہے کو زیادہ جانے ، تھوڑی تباہی کو زیادہ مانے اور مدد حاصل کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ نشے کی بیماری اہل خانہ کیلئے نت نئے مواقع پیدا کرتی ہے جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ مریض کی مدد کر سکتے ہیں۔ یہ مواقع تب پیدا ہوتے ہیں جب نشے کے باعث کوئی حادثہ ہوتا ہے، ندامت کا سامنا ہوتا ہے یا کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اہلخانہ موثر کونسلنگ کے ذریعے ان موقعوں کو پہچاننا اور ان سے فائدہ اٹھانا سیکھیں۔

ایک دفعہ میں شراب کی بیماری سے بحالی پانے والے کچھ ’دوستوں‘ کے ساتھ ڈنر کر رہا تھا۔ انہی میں ایک کی نشے سے بحالی کی پندرھویں سالگرہ تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ کس طرح ایک چھوٹے سے غلیظ کمرے میں جو حشرات الارض سے بھرا تھا میں کئی سال بلا ناغہ شراب اور دیگر منشیات کا استعمال کرتا رہا۔ اس کی زندگی عبرت کا نمونہ تھی لیکن وہ عرصہ دراز تک اپنے آپ کو نشے کے استعمال سے روک نہ سکا۔ علاج سے قبل وہ کئی دفعہ موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا۔ میں نے اس سے پوچھا”جب آپ منشیات کی دنیا میں غرق تھے تو آپ کے اہل خانہ کہاں تھے ؟“ اس نے جواب دیا ”میری بیوی نے تو خلع لے لیا تھا اور بچوں نے کبھی پلٹ کر پوچھا ہی نہیں ! انہوں نے اچھا ہی کیا، میں باپ کہلانے کے لائق بھی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ” اگر آپ کے اہل خانہ اور دوست احباب مل جل کر آپ کے پاس بحالی کا ایک ٹھوس منصوبہ لاتے تو کیا ہوتا ؟ کیا آپ محبت اور عزت کے ساتھ ملنے والی مدد قبول کر لیتے؟ کیا ایسا ممکن تھا کہ آپ جلد نشے سے نجات پا لیتے اور بیوی بچوں کیلئے کوئی بہتر صورت نکلتی؟ ہو سکتا ہے میاں بیوی کا رشتہ سلامت رہتا؟“ اس نے لمحہ بھر کیلئے میری آنکھوں میں دیکھا اور کہا ”میں نے پہلے کبھی اس پہلو سے سوچا ہی نہ تھا! کون جانے میں ان کی مدد قبول کر کے فلاح پا جاتا، ہو سکتا ہے میرا خاندان بکھرنے سے بچ جاتا! “ اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسو مجھے صاف نظر آ رہے تھے ۔

 کئی لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ کوئی بلا نوش پستیوں میں گرنے کے بعد زور دار طریقے سے ابھرے اور بلندیوں کو چھوئے؟ یقینا ایسا ہوتا ہوگا لیکن ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ان میں سے کون خوش قسمت اپنی جان بچا پائے گا اور اس کی کیا قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ ہر روز پاکستان میں 200 لوگ پستیوں میں گرنے کے بعد زمین میں اتر جاتے ہیں ، ان گنت جیل جاتے ہیں،پاگل ہو جاتے ہیں یا کہیں کے نہیں رہتے ۔ خاندان بکھر جاتے ہیں ، بچے ماں یا باپ یا دونوں کو کھو دیتے ہیں ۔ رشتے ہمیشہ کیلئے پھیکے پڑ جاتے ہیں ، تاہم ان میں سے کچھ بحالی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ راستہ دشوار ہوتا ہے لیکن آگے چل کر آسان ہو جاتا ہے۔ بہت سی چیزیں مریض کی کایا پلٹنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن اہل خانہ اور دوست احباب کا کردار اس میں لازوال ہے۔تین سے زیادہ دہائیاں گزر گئیں ،میرے شب و روز گواہ ہیں کہ نشے کے مریضوں اور دیگر علتوں میں مبتلا انسانوں کی زندگی میں بحالی کا معجزہ برپا کرنے میں اہل خانہ اور دوست احباب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مدد حاصل کرنے والوں میں سے 77% اہل خانہ اور دوست احباب کی کاوشوں سے آتے ہیں جبکہ 23% ایسے ہوتے ہیں جن کی زندگی میں بحالی کا چراغ اردگرد اکٹھی ہونے والی مصیبتوں اور ان کے اندر سے اٹھنے والے درد نے جلایا اور وہ علاج کے لئے چلے آئے۔ علاج کیلئے بربادی کا انتظار کرنے والوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے میرے پاس کہانیوں کے انبار لگے ہیں ۔

٭ایک 47 سالہ مطلقہ باہر کا پڑھا ہوا تین بچوں کا باپ جو اپنے ہی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا ہے ہر وقت شراب کے نشے میں دھت اور چرس بھرے سگریٹ پیتا ہے اہل خانہ نے اس سے بات نہیں کرتے ۔

 ٭ایک 24 سالہ نوجوان کو بھی میں قریب سے جانتا ہوں جس نے اپنی گرل فرینڈ کو کنگال کر دیا ہے ،حتٰی کہ اس کی گاڑی بیچ کھائی اور کہا کہ گم ہو گئی۔ لڑکی رو دھو کر چپ ہو گئی، نشے کی بیماری کا سایہ جس پر پڑتا ہے وہ بھی روگی ہو جاتا ہے۔

٭پولیس نے ایک 72 سالہ بوڑھے کو اپنے ہی گھر کے دروازے پر نیم برہنہ حالت میں نشے میں دھت دیکھ کر ہسپتال پہنچایا ۔ ہوش آتے ہی وہ ہسپتال سے غائب ہو گیا۔نشے کی بیماری، علاج کیلئے کھلتے ہوئے دروازے بند کرتی ہے۔

٭ ایک باپ تین بچوں کے ساتھ شراب کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا۔بچے سکول سے سیدھا گھر جانا چاہتے تھے لیکن باپ ڈرائیور کو شراب کی تلاش میں یہاں وہاں جانے کے لیے کہہ رہا تھا حتٰی کہ بچوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔

٭ ایک 52 سالہ خاتون نے شراب کے نشے میں دھت ہو کر ایک ماں بیٹی کو گاڑی کے نیچے دے دیا اور واپس مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ دونوں نے تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیا۔ خاتون نے 3 دن پولیس لاکپ میں گزارے، اتفاقی حادثے کا مقدمہ درج ہوا، شراب میں دھت ہونے کا معاملہ گول کر دیا گیا۔

٭ایک نوجوان جو نشے میں دھت پارٹی سے واپس آ کر بستر پر اوندھے منہ گرا اور اپنی قے نگل لی اور سانس بند ہونے سے موت کے منہ میں چلا گیا ۔ اس کا ایک بھائی ایک سال پہلے ہیروئن کی بڑی مقدار سونگھ لینے سے موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔

یہ تمام کہانیاں ان خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جن کے صدمے اور تکالیف بیان کرنے کے لیے ڈکشنری میں الفاظ نہیں ملتے۔ نشے کے مریضوں کے سنبھلنے یا علاج پر رضامند ہونے کیلئے کسی اَن دیکھی بربادی کا انتظار ظلم ہو گا ۔ بہت سی تکلیفیں تو وقتی ہوتی ہیں مگر جب نشے کے پروانوں کی زندگی میں بربادیاں مسلسل چل رہی ہوتی ہے تو وہ تب بھی نشہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ سر پر مصیبت آن پڑے تو کبھی کبھی وقتی طور پر نشہ چھوڑ بھی دیتے ہیں لیکن جونہی معاملات کچھ ٹھنڈے پڑ جائیں پینا پلانا پھر شروع ہو جاتا ہے۔ منشیات سے متاثرہ دماغ نشے کو مسائل کی جڑ تسلیم نہیں کرتا، ذرا بحران کم ہو، دباﺅ ذراہٹ جائے تو شراب ”بیسٹ فرینڈ“ بن جاتی ہے اور ایڈکشن اپنے گھناﺅنے روپ میں سامنے آکر کھڑی ہو جاتی ہے

تاہم ، یہ بھی سچ ہے کہ نشے کی بیماری اور دیگر علتوں میں مبتلا انسان اپنے پیار کرنے والوں کو تکلیف دینا نہیں چاہتے ، وہ اپنے اندر اعلیٰ صفات برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، بس ان سے ایسا ہو نہیں پاتا ۔ کئی دفعہ تو انہیں اپنی حرکتیں سمجھ ہی نہیں آتیں ۔ جونہی ان کی زندگی میں نشے کا غلبہ ہوتا ہے اور مصیبتیں چاروں طرف سے انہیں گھیرنا شروع کرتی ہیں، وہ ہر طرح ہاتھ پاﺅں مارتے ہیں کہ زندگی کی گاڑی چلتی رہے لیکن نشے کی بیماری کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی اور وہ ایک کے بعد دوسری مصیبت میں پھنستے چلے جاتے ہیں ۔چھوٹے بڑے مسائل ان کو گھیرے رکھتے ہیں۔ خراب روئیے، بے تکے فیصلے اور جذباتی اتار چڑھاﺅ، یہ سب نشے کی بیماری کے شاخسانے ہیں جو کہ دماغ کو شکستہ اور روح کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں ۔ اہل خانہ کنفیوژ رہتے ہیں۔ وہ بالکل نہیں جانتے کہ ان کے پیارے کو کیا ہو رہا ہے ؟ ان کے منہ سے اکثر نکلتا ہے کہ یہ کب سدھرے گا ؟ لیکن نشے کے مریض خود سے نہیں سدھرتے کیونکہ ایڈکشن ان پر اپنا شکنجہ کستی رہتی ہے اور وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور اور بے بس نظر آتے ہیں۔ جب میں کبھی نشے کے مریض کے دماغ میں جھانکتا ہوں تو مجھے وہ اس ادھیڑ پن میں نظر آتا ہے

 منشیات، شراب اور دیگر علتیں گھروں کا امن و سکون تباہ کر دیتی ہیں۔ علتوں میں مبتلا انسان اصلاح کی طرف پہلا قدم خود نہیں بڑھاتے، یہ بیڑہ ان سے پیار کرنے والے اٹھاتے ہیں۔علاج کا فیصلہ مریض کے ارد گرد صحت مند دماغوں سے ابھرتا ہے۔منشیات کا استعمال بیمار اور لاچار کر دیتا ہے۔ یہ بیماری تباہ کن ہے، تاہم تسلی رکھیں! یہ قابل علاج ہے۔ منشیات ، شراب اور دیگر علتوں سے نجات کے کئی راستے ہیں۔ ایڈکشن کی ابتداء ہو تو مریض کا علاج کے لئے آنا ضروری نہیں، اہل خانہ ٹریننگ کے ذریعے اپنے پیارے کو اس علت سے نجات دلا سکتے ہیں ایڈکشن قدم جما چکی ہو تو مریض کو آﺅٹ ڈور میں آنا پڑتا ہے۔ بیماری بہت پرانی ہو تو داخلہ ضروری ہوتا ہے، مریض میں علاج کی خواہش اور جذبہ کیسے پیدا کریں، آپ کو یہ سمجھانا معالج ذمہ داری ہے۔

٭٭٭٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں