تعلیم کیا ہے؟

Loading

تعلیم کیا ہے؟ تعلیم صرف لکھنے اور پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو زندگی گزارنے کے طریقوں کا شعور دیتا ہے اور اس میں زندگی کے مقاصد و فرائض کا احساس پیدا کرتا ہے۔ گویا کہ تعلیم ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت کا نام ہے اور اس مقصد اونچے درجے کے ایسے مہذب افراد پیدا کرنا ہے جو اچھے انسانوں اور ریاست کے ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دینے کے اہل ہوں اس لحاظ سے ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے اور تعلیم ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے افراد کی تعمیر ممکن ہے۔

         تعلیم و تربیت ہی کے ذریعے انسان میں وہ اعلیٰ صفات پیدا کی جاسکتی ہیں کہ وہ نہ صرف خود ایک اچھا انسان بن سکے بلکہ اپنے ملک اور معاشرے کے لیے مفید اور کار آمد فرد ثابت ہوسکے۔ نظام تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر موجودہ دور کی تمام ترقی یافتہ قومیں افراد کی تعلیم و تربیت پر زور دیتی ہیں۔ افراد کی تربیت محض افراد کی تربیت نہیں ہوتی بلکہ دراصل ایک قوم کی تربیت ہوتی ہے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے افراد تیار نہیں ہوتے قوم تیار ہوتی ہے۔ بقول علامہ اقبال صاحب

        ~ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

            ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

        پاکستان 14 اگست 1947ء کو اسلام کے نام پر آزاد اسلامی مملکت کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا تھا اور اس ملک کا قیام کی غرض و غایت یہی تھی کہ ایک ایسا الگ خطہ زمین حاصل کیا جاۓ جھاں پر اسلامی اقدار اور اسلامی نظام زندگی کو پروان چڑھایا جائے۔ اس لحاظ سے۔ اس لحاظ سے ایک ایسا نظام تعلیم پاکستان کی اولین ضرورت تھا جو نظریہ پاکستان یعنی اسلام کی بنیاد پر قائم ہو اور اسی نظریے کے مطابق نئ نسل کی تربیت اس طرز پر کرے کہ وہ قیام پاکستان کے مقاصد کو بطریق احسن پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ مگر افسوس اسے ہماری بد قسمتی یا نااہلی سمجے کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود پاکستان میں وہی نظام نافذ العمل ہے جو ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملا تھا۔ یہی وہ لارڈ میکالے کا تجویز کردہ نظام تھا اور اس نے یہ واضح طور پر یہ کہا تھا کہ “ہمارا مقصد ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا ہے جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں مگر ذہن و فکر کے اعتبار سے وہ انگریز ہوں” اور یقیناً وہ اس مشن میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ ظاہری اور نسلی طور پر تو ہم پاکستانی ہیں لیکن ذہن و فکر کے طور پر ہم انگریز بنے ہوئے ہیں۔llllllll

        اب انگریزی اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور اپنے بوریاں بستر لپیٹ کر یہاں سے تو جا چکے ہیں لیکن اب بھی ہم نے اسکے نظام تعلیم کو سینے سے لگا رکھا ہے۔ میں انگریزی زبان کی بات نہیں کررہا ہوں وہ تو صرف ایک زبان کی حد تک سیکھنا چاہیے بلکہ کوشش کی جائے کہ ہر زبان پر عبور حاصل ہو۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر آپ 2020 کے گیارویں کی انگلش کی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں ایک بھی اسلامی مضمون نہیں ہے بلکہ ابتدا میں بھی اسلامی مضمون نہیں تھا۔

اب انگریزی کے وضع کردہ اس نظام تعلیم نے مسلمانوں پر جو اثرات بد قائم کئے۔ ان کا احساس خود علی گڑھ تحریک کے بانی اور انگریزی تعلیم کے سب سے بڑے حامی سر سید احمد خان کو بھی آخری عمر میں ہوگیا تھا اور انہوں نے دکھ بھری حسرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ” تعجب ہے کہ جو تعلیم پاۓ جاتے ہیں اور جن سے قومی بھلائی کی امید تھی وہ مادہ پرست اور بدترین قوم ہوتے جاتے ہیں”۔  اسی طرح مولانا شبلی نعمانی نے انگریزی درس گاہوں کو ” خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ” قرار دیا تھا اور اکبر الہ آبادی نے اپنے بے پناہ تہذیبی شعور اور دور اندیشی کی بدولت اس نظام تعلیم کے مضمرات کا اندازہ لگایا تھا۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں

       ~ شیخ مرحوم کا قول اب بھی مجھے یاد آتا ہے

           دل  بدل  جائیں  گے  تعلیم  بدل  جانے  سے

           مسجد سنسان ہیں اور کالجوں میں دھوم ہے

           مسلہ مجھے ترقی کا معلوم ہے

           علامہ اقبال صاحب کو اس نظام تعلیم کی ہولناکیوں کا بخوبی اندازہ تھا، چنانچہ انہوں نے اپنے کلام میں جگہ جگہ اسے بڑی شدت سے ہدفِ تنقید بنایا ہے وہ فرماتے ہیں

        ~ اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم

        فقط سازش ہے دین و ملت کی

        دوسری جگہ فرماتے ہیں

        ~ گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا

            کہا  سے  آئے   صدا   لا    الہ الااللہ

             شکایت ہے مجھے یا رب خداوند مکتب سے

             سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

 ہمارے ملک میں تعلیمی نظام پر زیادہ تر خرچ زیادہ تر باہر ملکوں سے آتا ہے اور اکثر این جی اوز اسکے لئے بہت سرگرم رہتے ہیں۔ اس این جی اوز کا مقصد بالکل یہی ہے کہ پاکستان میں مغربی نظام تعلیم ترقی کرے اور اس کا ایک اہم پہلو    Co-Education System ہیں۔ اس کا مطلب محلوط نظام تعلیم جھاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور یہ ہماری لئے بربادی اور این جی اوز کی کامیابی ہیں۔ اس مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہیے بلکہ لڑکیوں کو تعلیم دینا وقت کا تقاضا ہیں۔ لیکن اس کے کچھ حدود ہیں اگر وہ پار کردیتی ہیں تو تعلیم پھر فتنہ بن جاتا ہے بقول علامہ اقبال صاحب 

             ~ اللّٰہ سے کرے دور وہ تعلیم بھی فتنہ 

             اولاد بھی،جائیداد بھی،جاگیر بھی فتنہ

             ناحق کیلئے لڑے وہ شمشیر بھی فتنہ

             شمشیر بے کیا وہ نعرہ تکبیر بھی فتنہ

طلباء کو الگ جامعہ،کالج یا سکول جبکہ طالبات کو الگ ہونا چاہیے اور اب تو Co- Education system تو بہت پھیل چکا ہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہیں۔ فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے حکومت وقت نے اگر اس کیلئے اقدامات نہیں کئے تو یہ کنٹرول سے باہر ہو جاۓ گا۔تعلیم و تربیت حاصل کرنے کیلئے تین ذرائع کا ہونا لازمی ہیں۔

1-صحیح مآخذ تعلیم

2- صحیح معلم

3- صحیح طریقے سے

اگر اس میں ایک بھی صحیح نہ ہو یہ تعلیم وترتیب صحیح نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں