بی ایس او کا ہماری نوجوان نسل کی گمراہی میں کلیدی کردار

Loading

بی ایس او تنظیم کو (بلوچستان اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن)کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا مقصد طلباء کی آواز اور ان کے حقوق اور طلباء کے نظریات کو ایوان میں بیٹھے حکومتی نمائندوں تک بآسانی پہنچانا تھا، لیکن آجکل بی ایس او کا دہشتگرد تنظیموں بی ایل ایف، براس، بی ایل اے اور بی آر اے سے روابط رکھنا ایک لمحہ فکریہ ہے؟ اس آرگنائزیشن کےبننے کے مقاصد کچھ اور تھے لیکن آج کل یہ تنظیم نام نہاد بلوچوں اور بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے کام کر رہی ہے۔ دشمن ممالک کے ایجنڈے پر کام نہ کرنےسے جب بی ایس او کو روکا گیا تو اس نے منفی پروپیگنڈہ کرنے کیلئے طلباء کا استعمال کرنا شروع کردیا اور کالج، یونیورسٹیوں میں بچوں کو دھرنوں کا سبق پڑھانا اور پلے کارڈ دیکر سڑکوں پر لاکر کھڑا کردیا۔ اور بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ بی ایس او نے براس جیسی دہشتگرد تنظیم کو اپنے طلباء فراہم کیے اورتعلیمی اداروں کو دہشت گردوں کی نرسری بنادیا گیا۔ دہشتگرد تنظیمیں بیرونی ممالک اور ان کے ایجنسیوں سے پیسے اور اسلحہ لیکر ان طلباء کو سیکورٹی فورسز سے لڑاتی ہیں اور جوابی کاروائی میں جب ان کا کوئی جانی نقصان ہوتا ہے تو بی ایس او تنطیم سامنے آ کر سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کو خراج تحسین، کیمپین چلاکر بدامنی پھیلاتی ہے۔ حال ہی میں یاد رہے بی ایس او آزاد نے بلوچ شہدائے کے نام سے ایک سوشل میڈیا پر تحریک چلا کر بہت سارے لوگوں کی تصاویر شائع کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جبکہ ان تصاویر میں اکثریت کا تعلق دہشتگرد تنظیموں سے تھا جو کہ ملک میں بم دھماکوں ،اغوا برائے تاوان اور دہشتگردی کے مختلف واقعات میں ملوث رہے اور پولیس یا دوسرے سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔ یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ دہشت گرد تنظیم غریب عوام کو بم دھماکوں میں نشانہ بنائے، قتل وغارت کا بازار گرم کرے اور بی ایس او اپنے نوزائیدہ دماغوں کو جوکہ اب تک طالب علم ہیں ان کی ذہن سازی کر کے ان سے دہشتگردوں کو خراج تحسین پیش کرے۔ بی ایس او آزاد کا طالب علم جب دہشتگرد تنظیم سے ہاتھ ملاتا ہے تو وہ طالب علم نہیں رہتا بلکہ ایک دہشتگرد بن جاتا ہے۔ اور مجرمانہ کاروائیوں میں ملوث ہو جاتا ہے اور جب وہ دہشتگرد مارا جاتا ہے تو وہ طالب علم نہیں ہوتا بلکہ ایک دہشتگرد مارا جاتا ہے۔ اور اس کی حمایت کرنے والے بھی ریاست کے غدار ہیں جو وفادار نھیں؟

بلوچستان میں رہنے والا عام بلوچ دہشتگرد تنظیموں کی مخالفت میں کھڑا ہو یا آواز اٹھائے تو اس کو سرعام قتل کرکے ڈیتھ سکواڈ کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے تنظیموں کے خلاف بات کی اور دہشتگردوں کے خلاف بات کرنے والے کو ڈیتھ سکواڈ کا نام دیکر بے گناہ مار دیا جاتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟زاہد بلوچ ،دادین بلوچ ،اور منیر بلوچ جیسے کئی بلوچ فرزندوں کو ڈیتھ سکواڈ کا نام دے کر بے گناہ قتل کیا گیا۔ کیا وہ بلوچستان کے بلوچ نہیں تھے؟ ایسی منافقت کیوں ہے اس منافقت کے پیچھے دہشتگرد تنظیمیں اور ان کے سھولت کار اور نام نہاد بلوچ ہیں جو بلوچستان میں امن کے حامی نہیں یہ لوگ انسان نھیں بلکہ وہ کالے بھیڑیے ہیں جو بلوچستان میں بچوں کے مستقبل کو نقصان پھنچا کر اپنے بچوں کو ملک سے باہر تعلیم دلوا رہے ہیں ان کالی بھیڑوں کو بے نقاب کرکے ان کا خاتمہ کرنا ہوگا اور بلوچستان مین دشمن ممالک کے پروپیگنڈے کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ انشاءاللہ بلوچستان میں امن قائم ہوگا اور وہ دن دور نہیں جب بلوچستان امن کا گہوارہ بنے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں