قاسم علی شاہ کہتے ہیں کہ عادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بندہ کیا ہے، کون ہے، کیسا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عادت دی کیسے جائے؟
آپ جب بچوں کی تربیت کر رہے ہوتے ہیں تو اصل میں آپ اسکو عادتیں دے رہے ہوتے ہیں۔جتنی اچھی عادتیں آپ نے بچوں کو دی ہیں ، اتنا بچہ دنیا میں کامیاب ہو گا۔ عادتوں پہ کام ہو جائے تو مستقبل ٹھیک ہو جائے گا ۔عادتیں اچھی نہیں ہیں جتنے مرضی اچھے وسائل مل جائیں بچہ کامیاب نہیں ہو گا۔
اچھی عادت ڈالنے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ جس بھی چیز پہ شاباش دی جائے جس بھی کام کو اچھے الفاظ میں سراہا جائے وہ آہستہ آہستہ عادت بن جاتی ہے ۔
آج سے ایک لسٹ بنائیں کہ آپ بچوں کو کن چیزوں پے شاباش دیتے ہیں اور کن چیزوں پہ تنقید کرتے ہیں آپکی حوصلہ افزائی اور تنقید دراصل وہ سامان ہیں جن کے ذریعے عادت بنتی ہے۔
عام طور پہ یہ دیکھا گیا ہے کہ جب والدین کو بچوں کی غلطی کا بتایا جائے تو وہ مانتے نہیں ہیں کہ ہمارا بچہ تو ایسے کر ہی نہیں سکتا یعنی غلطی پہ پردہ ڈالتے ہیں۰ جب بھی آپ بچے کی غلطی کو کور کریں گے وہ سائز میں بڑی ہو جائے گی ۰جب تک والدین غلطی کو غلطی نہیں سمجھیں گے بچہ کبھی بھی درست سمت کی جانب نہیں بڑھ سکے گا اور “غلط کاموں” کو اپنائے گا۔
“ ناگواری ” کا اظہار کرنا سیکھیں۰ ناگواری نہ ناراضگی ہوتی ہے، نہ مار ،نہ ڈانٹ بلکہ یہ ایک احساس کا نام ہے اپنے بچوں میں بری عادت یا غلطی دیکھیں تو اُنکو ناگواری سے محسوس کروائیں کہ یہ مناسب نہیں ہے ۰ اور خوشگواری بھی محسوس کروائیں جب بھی اُن میں اچھی چیزیں دیکھیں ۔
آپ بچے سے جو بھی کام کروا کہ اُسکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو وہ عادتیں بن جاتی ہیں چاہے وہ کام اچھے ہوں یا بُرے ۔ چھوٹی برائی کی حوصلہ افزائی بڑی برائی کی وجہ بن جاتی ہے اِسی طرح چھوٹی اچھائی کی حوصلہ افزائی بڑی اچھائی کو پیدا کر دیتی ہے۔آپ بچوں میں جو عادتیں دیکھنا چاہتے ہیں انکی روز مرہ کی بنیاد پہ حوصلہ افزائی کریں۰ عادتیں بھی وراثت کی طرح ہوتی ہیں جس طرح وراثت یا جائداد اولاد میں منتقل ہوتی ہے بالکل اِسی طرح عادتیں بھی منتقل ہوتی ہیں۔
بچوں کو روز مرہ کی عادتیں سیکھائیں
وقت پہ کام کرنے کی عادت
چیزیں سمیٹنے کی عادت
سو کے اٹھنے کے بعد اپنے بستر ٹھیک کرنے کی عادت
اپنی الماری ،سٹڈی ٹیبل ٹھیک کرنے کی عادت
کھانا کھانے کے بعد دسترخوان یا ڈائنگ ٹیبل سمیٹنے کی عادت
ان کےعلاوہ مدد کرنے کی عادت ضرور کروائیں ۔
عادتیں فطرت بن جاتی ہیں “ اچھے بچے” بنانے کے لئے ضرورت ہے کہ “اچھے والدین “بنیں ۰۰۰۰ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ والدین کی عادتیں %65 چُپ کر کے بچوں میں چلی جاتی ہیں خواہ وہ اچھی ہوں یا بُری ۰ آپ کے طور طریقے ، انداز ، ملنے جلنے کے اطوار، بات چیت کا انداز جو بڑوں میں ہے وہ بچوں میں چلا جاتا ہے غور کریں کہ اللّٰہ کیا کہہ رہا ہے یہ نہیں کہ دنیا کیا کہہ رہی ہے آپکا برتن خالی ہے تو بچے کا بھی رہے گا اسلئے ضروری ہےکہ بچوں کے رول ماڈلز بنیں۔
بچوں کے لئے مثال بن جائیں جو بچوں میں عادتیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ کر کے دیکھائیں وہ خوبیاں اپنے اندر پہلے پیدا کریں جو آپ بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں مثلاً آپ بچے میں سخاوت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پہلے خود سخی بنیں تا کہ بچہ یہ کہہ سکے کہ اُس کے والدین کتنے سخی ہیں۔ ہماری والد ین کے طور پہ ذمہ داری یہ ہے کہ بچوں کی عاقبت خراب نہ ہو قرآن میں ہے “ اپنی اولاد اور اپنی بیویوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ”اس کی علاوہ ہماری ذمہ داری ہے کی ہمارا بچہ معاشرے کے لئے خراب نہ ہو اس کے علاوہ یہ کہ ہمارا بچہ خود دار ہو،خود انحصار ہو کسی کا محتاج نہ ہو اُس میں اچھے اِخلاق ہوں اور ہمارا بچہ اس قابل ہو کہ وہ زندگی کے مسؔلوں اور چیلنچز کو خود حل کر سکے وہ رشتوں کو نبھا سکے۔
سب سے اہم ذمہ داری یہ کہ ایسے اخلاق پیدا کر دیں کہ بچوں میں خوفِ خُدا ہو اللّٰہ کی ناراضگی کا خوف ہو کہ تنہائی میں بھی غلط کام نہ کرے پختہ ایمان ہو درست عقیدہ ہو اور اللّٰہ پہ یقین ہو ۔
یہ وہ چند بنیادی مقاصد ہیں جن پہ عمل کر کے ہم بچوں میں اچھی عادتیں پیدا کر سکتے ہیں ۔
یہ تحریریں آپ کو بھیجنے کا مقصد تب پورا ہو سکتا ہے جب آپ اس کو بغور پڑھیں عمل کرنے کی کوشش کریں اور پھر اپنے دوستوں و گھر والوں کےساتھ شراکت کریںَ اگر آپ کر تحریر پسند آئے تو لائک کر دیا کریں تا کہ یہ پتا چل جائے کہ آپ نے تحریر کر پڑھ لیا ہے اور آپ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے کی بھی نیت کرتے ہیں َ شکریہ