بلوچ ثقافت میں براہوئی اور پشتون ثقافت بھی شامل ہے

Loading

حصہ دوم

اس کے علاوہ فورٹ منرو میں سالانہ جرگہ ہوتا تھا جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی مقدمات سنتا تھا۔جرگے کا کوئی تحریری دستور یا قانون نہ تھا بلکہ اس حوالے سے ان کی اپنی روایات تھی اور ہر قسم کے تنازعے کے لیے روایتی سزائیں مقرر تھیں۔ جو اہل جرگہ حالات کے مطابق دیتے تھے۔ مثلا مکران میں معتبر بلوچ کا خون بہا تین ہزار روپیہ تھا ، ایک عام بلوچ کا دور ہزار روپیہ ، ملاح کا پانچ سو روپیہ اور ملازم کا دو سو روپیہ۔ اس میں سے ایک تہائی نقد، ایک تہائی آلات اور ایک تہائی جائیداد کی صورت میں ادا کرنا پڑتا تھا۔اکثر امور شرعی قانون کے مطابق حل ہوتے تھے۔ لیکن بعض امور میں مقامی رسم ورواج کو ترجیح دی جاتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی بلوچستان میں یہ نظام عدل قائم رہا۔ 1970 میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خان نے اسے منسوخ کر دیا ۔ اگرچہ اس منسوخی کے بعد بھی بلوچ قبائل میں تقریباً نوے فیصد فیصلے اسی جرگہ نظام کے تحت ہوتے رہے۔ لیکن اس نظام کی منسوخی کا حکم حکومت اور بلوچوں کے درمیان جاری تنازعوں میں ایک مزید تنازعے کا سبب بن گیا۔بلوچوں کے نزدیک نئے قانون( ٰ یعنی موجودہ رائج الوقت قوانین )کے تحت قائم عدالتوں میں ایک فیصلہ کرنے میں لوگوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں اور جرگہ سسٹم میں وہی فیصلہ چند دنوں میں ہوجاتا  بلوچ مفکر سلطان محمد صابر بلوچستان کی ثقافت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بلوچ ثقافت ایسی ثقافت ہے جس میں عربی کے علاوہ براہوئی اور پشتون ثقافت بھی شامل ہے۔ بلوچ اور پشتون ثقافت میں فطری طور پر آزادی، حساسیت اور عسکری او صاف شامل ہیں۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے سلطان محمد صابر نے لکھا ہے کہ چونکہ یہ ایک ہی علاقے کے رہنے والے ہیں اس لیے ان دونوںقوموں کی ثقافت میں قرابت داری ہے۔ان کے لباس، خوراک اور رسومات میں یکسانیت بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ جیسے پشتو ن میں شادی بیاہ کے چار مراحل ہیں ہوکڑہ‘ ولور‘ کوزدہ‘ وادہ۔ یعنی بات پکی کرنا۔ شادی کے اخراجات‘ منگنی‘ اور شادی۔ بلوچی میں ہبر بندی‘ لب‘ سانگ اور سیر بھی چار ہی رسومات پر مشتمل ہیں ۔جبکہ براہوئی ثقافت بلوچی ثقافت ہی کی ایک شکل ہے بلوچستان کے جن علاقوں میں بلوچ براہوئی پاس پاس رہتے ہیں ان کی ثقافت میں کسی طرح کا امتیاز نظر نہیں آتا۔ بلوچ محقق نور محمد براہوئی ثقافت پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ” یہ امر بطور خاص ملحوظ خاطر رہے کہ ان تہذیبوں کے وہی عناصر اور اجزاءتہذیب یا ثقافت کے جزو سمجھے جائیں گے جو عام ”قومی روح“ کے ساتھ اس طرح جذب ہو جائیںکہ ہر جماعت قبیلہ یا قبائل انہیں اپنا ورثہ یا تہذیبی اثاثہ سمجھنے لگے مثال کے طو رپر اس وقت براہوئی اور بلوچ قبائل چند ایک تہذیبی اصولوں کو مشترکہ طور پر اپنانے سے کچھ اس طرح سے یکجان و دو قالب ہو چکے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا بظاہر اپنا کوئی الگ قطعی وجود باقی نہیں رہ سکا اور ”ملکی یا قومی روح“ نے اپنا اثر دکھا کر ایک مشترکہ ثقافتی مقصد پیدا کر دیا ہے ، تاہم زبان و ادب کے حوالے سے براہوئی زبان کی قدامت ایک علیحدہ اور عمیق مطالعے کا متقاضی موضوع ہے “ ۔حال احوال“ کی روایت آج بھی دور افتادہ علاقوں میں حال بلوچ قوم کے لئے اخبار ریڈیو پرنٹ میڈیااور الیکٹرک میڈیا کا کردار ادا کرتی ہے۔ دو اجنبی بھی اگر دوران سفر کہیں مل جائیں تو علیک سلیک کے بعد حال لینے اور حال دینے میں ہرگز بھی عذر معذرت نہیں کرتے جو جس نے دیکھا جس پرجو بیتی بلا کم و کاست اظہار کرتا ہے۔ اس طرح ایک معمولی واقعے سے پورا علاقہ باخبر ہو جاتا ہے اورمہمان نوازی تو بلوچ کی گھٹی میں پڑی ہے۔ بلوچ کتنا بھی خستہ و خوار ہو غربت زدہ اور نادار ہو وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر مہمان کی خاطر تواضع کرتا ہے۔ یہ بلوچی مہمان نوازی کی شان ہے کہ مرد اگر گھر پر موجود نہ ہو خاتون خانہ کی ذمہ داری ہے کہ مہمان کے قیام و طعام کا انتظام کرے ۔بلوچوں کی معاشرتی زندگی میں وعدہ خلافی کے علاوہ جھوٹ بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔عورت کا مقام اور احترام بلوچ کی سرشت میں شامل ہے دو فریقوں کے درمیان کوئی جھگڑا خون ریزی کی حد کو پہنچ جائے تو ایک عورت کا صلح کے لئے بیچ میں پڑنے سے خونخوار جنگیں صلح میں بدل جاتی ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں