بلوچستان کی پاکستان میں شمولیت۔۔۔

Loading

جبکہ ان آزاد ریاستوں کی ایران میں شمولیت ناممکن تھی دونوں قوموں کے درمیان تاریخی دشمنی کی رکاوٹ حائل تھی۔ایران جسے خوداپنے بلوچوں سے آزادی کے مطالبے کی وجہ سے مسائل درپیش تھے،بلوچ عوام بلوچستان کی ایران میں شمولیت کو کبھی بھی قبول نہ کرتا ۔اسی طرح کچھ اراکین نے افغانستان کے ساتھ الحاق کی تجویز بھی پیش کی گئی ۔جس کو اس وجہ سے مسترد کر دیا گیا کہافغانستان خود بیرونی مدد کے بغیر روس سے اپنا دفاع تک نہیں کرسکتا ابھی تک تو افغانستان چاروں طرف سے خشک علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک ہےجسے کسی ملک کی دلچسپی کا سامنا نہیں ہے لیکن اگر اس کی سرحدیں بلوچستان کی صورت میں سمندر تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر روس اسے حاصل کرنے کے لئے افغانستان کی خودمختاری کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ان آزاد ریاستوں کا انڈیا کے ساتھ الحاق جغرافیائی اور سیاسی دشواریوں کے بنا پرناممکن تھی اور یہ پاکستان کے لئے بھی انتہائی اشتعال انگیزی کا باعث بن سکتا تھا۔قلات کے علاوہ تمام آزاد ریاستوں نے جب پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی جس کی وجہ سے خان آف قلات نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیاجبکہ اس فیصلہ کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انہیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلاجو کہ صرف قلات تک محدود تھی۔اور آخر کار مارچ1948ء میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا 1958 ء میں اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروزخان نون نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقہ کی ملکیت بھی حاصل کرلی۔1969 میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبےبنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی

جاری ہے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں