بلوچستان کی سرزمین خوبصورتی سے مالا مال

Loading

روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کے مطابق ’تمام خوشحال خاندانوں کی کہانیاں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں لیکن غریب گھرانوں کی کہانیاں مختلف۔‘ بالکل اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے حسین مقامات پر لکھے گئے سفر نامے ایک جیسے تجربات کا احاطہ کرتے ہیں مگر پسماندہ زمینوں کا سفر آپ کو بہت سے اچھے، برے اور بعض اوقات تکلیف دہ تجربات سے گزارتا ہے۔خاص طور پر ایسے مقامات جو معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں سے گزر رہے ہوں۔ آج آپ کو بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ایک ایسے ہی علاقے ’ہنگول نیشنل پارک‘ کی سیر کرواتے ہیں جو نا صرف تاریخی اہمیت کا حامل رہا ہے بلکہ موجودہ دور میں بھی ماہرینِ جنگلی حیات، آثار قدیمہ اور محققین کے لیے کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو تقریباً چھ لاکھ 19 ہزار ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کراچی سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران میں پھیلا ہوا ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلے اس علاقے کو سنہ 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔قدرتی تحفظ کی عالمی یونین (آئی یو سی این) کے معیار کے مطابق نیشنل پارک ایک ایسا محفوظ علاقہ ہوتا ہے جو جنگلی حیات، ماحولیات اور ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے خصوصی طور پر تعمیر کیا جاتا ہے اور جس کا مقصد کسی مخصوص علاقے میں نایاب ہوتی انواع ( نباتات اور حیوانات) کو ایسا موافق ماحول فراہم کرنا ہے جو اُن کی بقا کے لیے ضروری ہو۔اس پارک کا نام اس کے جنوبی حصے میں بہنے والے دریائے ہنگول کے نام پر رکھا گیا جو بحیرۂ عرب کے ساحل کے ساتھ بہتا ہے اور بڑی تعداد میں آبی پرندوں اور سمندری حیات کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتا ہے۔ہنگول نیشنل پارک پاکستان کے دیگر علاقوں میں بنائے گئے نیشنل پارکس مثلا کیرتھر، خنجراب، چترال، ہزار گنجی، مارگلہ ہلز اور ایوبیہ نیشنل پارکس سے اس حوالے سے ممتاز ہے کہ اس میں چھ مختلف ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔اس پارک میں بیک وقت صحرائی و میدانی علاقے بھی ہیں۔ شمال میں گھنے جنگلات اور جنوب میں بنجر پہاڑی سلسلہ ہے جبکہ دوسری جانب دریائے ہنگول کے ساتھ وسیع کھاڑی یا نمکین پانی والا دلدلی علاقہ ہے۔ یہ دریا آگے جا کر سمندر میں گرنے سے پہلے مدوجزر والا ایک دہانہ بناتا ہے جو ہزاروں ہجرتی پرندوں اور دلدلی مگرمچھوں کا مسکن ہے۔صدیوں کے ارتقا اور سمندری ہواؤں کے قدرتی کٹاؤ کے عمل سے چٹانیں انوکھے خطوط پر تراشی گئی ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہنگول نیشنل پارک میں ملک بھر سے سیاحوں کی آمد کا باقاعدہ آغاز سنہ 2004 میں مکران کوسٹل ہائی کی تکمیل کے بعد ہوا۔ عجائب کی اس سرزمین پر یہ پانچ اشیا سب سے پہلے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں