قسط نمبر 12
اسلام غلامی کی ہرقسم اور ہرفرق کومٹا دیتاہے-یعنی اس کی نظر میں بادشاہ بھی اتنا ہی قابلِ احتساب ہے جتنا ا یک گدا-لیکن افسوس! ہمارے حکمران گھبراتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کو احتساب کیلئے عدالتوں میں بلایا جاتا ہے- بقول اسلام کوئی غلام ہے یا آقا، کوئی بادشاہ یا فقیر جب احتساب ہو گا تو سب کا ہوگااور برابری کی بنیادپہ ہوگا-
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اَمیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں! |
آج مغربی ادارے جو اسلامی نصاب کوختم کرنے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک تو یہ ابلیس کا ایجنڈا ہے وجہ یہ ہے:
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے |
میرے دوستو! اقبال اشتراکیت اورسرمایہ داری نظام کی بجائے اسلام کےاصولِ معیشت کی بات کرتے ہیں –
اقبال 1926ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے- اپنے ’’لیجیسلیٹو کیرئر‘‘ میں اقبال نے جو سب سے اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں ان میں ایک اقبال کی فلور آف دی ہاؤس پہ قرار داد ہے جس سے بڑے بڑے کانپتے ہیں-کیونکہ وہ زرعی اصلاحات اور جاگیر دارانہ تسلط کے خاتمے کی ہے- اقبالؒ اپنے خطوط میں یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ زمینیں جاگیرداروں نے تاریخی طورپہ کیسےحاصل کیں ؟ خواتین و حضرات اس پر بھی تحقیق کریں – آپ کومختصراً بھی عرض کروں کہ اقبالؒ یہ کہتے ہیں :
خدا آن ملتی را سروری داد کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت بہ آن ملت سروکاری ندارد کہ دہقانش برای دیگران کشت |
پاکستان کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر ہے اور پاکستان میں زراعت کی ترقی نہ کرنےکی وجہ جاگیردارانہ نظام اور زمین کی غیر منصفانہ تقسیم ہے-اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ اللہ ان قوموں کو دنیا میں سرخرو کرتا ہے جواپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں-خدا ان قوموں کو دُنیا کی حکمرانی نہیں بخشتا جس قوم کے دہقان اپنا حق حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کے پیٹ بھرنے کے لئے اپنی زندگیاں کاشت کاری میں ختم کردیں-اسی لئے اقبال فرماتے ہیں کہ:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اُس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو |
یعنی گندم کے خوشے پہ اُسی کا حق ہے جو اُسے کاشت کرتا ہے- ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے بھی یہی اصلاحات لانے کی کوشش کی جس کے مقابلے میں جاگیردار اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے حق میں بہت سارے فتوے بھی مل گئے- جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں پہ اقبال کا تصور رائج نہیں ہونے دیا-مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آ جانے کے بعد بھی زمین کی غیر منصفانہ تقسیم (یعنی جاگیر دارانہ نظام) کا برقرار رہنا اقبال کے نظریۂ پاکستان سے انکار اور غداری کے مترادف ہے-
’’زمین کا مالک اللہ ہے‘‘ اس موضوع پہ اقبال کا کلام کلیات میں کئی جگہ پھیلا ہوا ہے ، فارسی میں بھی اُردو میں بھی- بالِ جبریل میں اقبال کی ایک نظم جس کا عنوان ’’اَلاَرْضُ لِلہ‘‘، ہے- جس کا ترجمہ ہے ’’زمین اللہ کیلئے‘‘-اس نظم میں جتنے سوالات ہیں ان کا ای
جاری ہے ۔