بلوچستان کی امن کو سبوتاژ کرنے میں بی ایل اے کا کردار اورانسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی

Loading

تحریر:ماہ جبین بلوچ
بحیثیت بلوچستان کی بیٹی مجھے بلوچستان کا امن سب سے زیادہ عزیز ہے۔ بچپن سے لیکر جوانی تک میں نے بلوچستان کو صرف جلتے ہوئے دیکھا ہے۔زندہ رہنا اور امن سے رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر ہم سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے اور آئے دن بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیموں نے بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کی زمہ داری لی ہوئی ہے۔
اس بات سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ جب بلوچستان کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے ہیں تب یہی دہشتگرد بی ایل اے یا براس کی شکل میں پاک فوج کے جوانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور یہاں حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور بجائے اسکے کہ وہ دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کریں بلکہ مزید وہ کالعدم جماعتوں کے حق میں بولتے ہیں جس سے دہشتگردوں کے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں۔ میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے پوچھنا چاتی ہوں کہ کیا انسانی حقوق صرف انہی کے ہوتے ہیں جو بلوچستان میں دہشتگردی کراتے ہیںّتحریر:ماہ جبین بلوچ
بحیثیت بلوچستان کی بیٹی مجھے بلوچستان کا امن سب سے زیادہ عزیز ہے۔ بچپن سے لیکر جوانی تک میں نے بلوچستان کو صرف جلتے ہوئے دیکھا ہے۔زندہ رہنا اور امن سے رہنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے مگر ہم سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ہے اور آئے دن بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات اس بات کو عیاں کرتی ہیں کہ بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیموں نے بلوچستان کے امن کو تباہ کرنے کی زمہ داری لی ہوئی ہے۔
اس بات سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ جب جب بلوچستان کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہوتے ہیں تب یہی انڈین فنڈڈ دہشتگرد بی ایل اے یا براس کی شکل میں پاک فوج کے جوانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور یہاں حیرانگی کی بات یہ یے کہ ایسے وقت میں نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور بجائے اسکے کہ وہ دہشتگردی کے واقعات کی مذمت کریں بلکہ مزید وہ کالعدم جماعتوں کے حق میں بولتے ہیں جس سے دہشتگردوں کے حوصلے مذید بلند ہوتے ہیں۔ میں انسانی حقوق کے تنظیموں سے پوچھنا چاتی ہوں کہ کیا انسانی حقوق محض انکے ہوتے ہیں جو بلوچستان میں دہشتگردی کراتے ہیں؟
بی ایل اے کی دہشتگردی کی تاریخ پر اگر نظر دہرائی جائے تو یہ کالعدم جماعت 1970 کی دہائی میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی۔ جرنل ضیاالحق نے بلوچستان کے امن کو بچانے کیلئے کوششیں جاری رکھیں اور بلوچستان کے سیاسی کارکنوں سے کامیاب مزاکرات کئے تو بی ایل اے کی دہشتگردی دم توڑ گئی۔
سنہ 2000 میں پھر بی ایل اے کی دہشتگردانہ کاروائیاں شروع ہوئی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں بی ایل اے کی بڑھتی ہوئی دہشگردی کو کاؤنٹر کرنے کیلئے اور بلوچستان کے امن کو قائم رکھنے کیلئے پاک فوج کے جوانوں نے کسی قسم کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا۔دہشتگرد جماعتیں چاہے وہ بی ایل اے ہو،بی ایل ایف یا بی آر اے بلوچ نسل کشی میں ہمیشہ یہ صف اول پر رہی ہیں ان کے ہاتھ نہ صرف بلوچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں بلکہ دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مزدوروں کو بھی انہوں نے اپنی دہشتگردی کی کاروائیوں کا نشانہ بنایا ۔ مزید اگر ان کی دہشتگردی پر بات کی جائے تو انہوں نے بلوچستان کے ہر طبقے کو اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنایا ہے جس میں بلوچستان یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر ناظمہ طالب جیسے کئی بے گناہ افراد بھی شامل ہیں۔
آج انہی دہشتگرد تنظیموں کی وجہ سے ہماری مائیں اور بہنیں سڑکوں پر ہیں،یہی دہشتگرد تنظیمیں تھیں جنہوں نے بی ایس او جیسی اسٹوڈنٹ ونگ کو مسلع کیا اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کیلئے سینکڑوں طلبا ء کو ورغلا کر پہاڑوں پر بھیج دیا۔ آج بلوچستان کی نئی نسل ان دہشتگرد تنظیوں کا اصل چہرہ پہچان چکی ہے یہ صرف اپنے مفادات کیلئے بلوچ قوم کو ہتھیار بناکر یا ان کا کندھا استعمال کرکے اپنے عزائم کو پورا کرنا چاہتی ہیں لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے ۔بلوچ قوم اب باشعور قوم بن چکی ہے جو انکے بہکاوے میں نہیں آنیوالی جو بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں