قوم کا نمائندہ ہونے کی جو غلط فہمی یا خوش فہمی بلوچستان کے علیحدگی پسند لیڈران کو ہے، شاید ہی کسی اور کو ہو۔ ٹیوٹر پر چند الفاظ لکھ کر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی باتوں اور دعوؤں کے ذریعے شاید بلوچستان میں طوفان برپا کردیا ہے۔ لیکن بلوچستان تو اُن سے اس طرح لاتعلق ہے کہ ان کے دعوے اور تقریروں کی گونج بلوچستان میں سنائی نہیں دیتی ہیں۔
ابھی یہ کل کی ہی بات ہے کہ اخترندیم نے حیربیار مری کی ایک انٹرویو جو حال ہی میں شائع ہوا ہے، کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کیا ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد بلوچ عوام یہ جانتے ہیں کہ ان کا حقیقی لیڈر کون ہے۔ شاید کوئی مصلحت آڑے آگیا ہے وگرنہ موصوف یہ بھی لکھ جاتے کہ میں ہی واحد و لاشریک بلوچستان کا لیڈر ہوں۔ ان میں خوش فہمیوں کا سلسلہ اس قدر دراز ہے کہ شاعر کے بقول ہر اینٹ سمجھتا ہے کہ دیوار مجھ سے ہے۔ بلوچ عوام کے شعور کی بات اگر کی جائے تو اخترندیم بجا فرماتے ہیں، اب بلوچستان کے لوگوں کو یہ شعور آگیا ہے کہ جو شخص ایک یونین کونسل تک کی رہنمائی کے قابل نہیں اسے کیوں قومی لیڈر تسلیم کیا جائے۔ اگر موصوف یہ جتانا یا بتانا چاہ رہے ہیں کہ بلوچ عوام ابھی تک ان مسلح لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے بلوچستان میں ہرقسم کی تباہی مچائے رکھی اور ابھی تک جہاں انہیں موقع ملے لوگوں کو مارتے ہیں، اغواء کرتے ہیں اور بلوچستان کے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرتے ہیں، تو وہ صریح غلطی پر ہیں۔ بلوچستان ہمیشہ لیڈروں سے دھوکہ کھائے ہوئے ہے، وہ لیڈرز چاہے قبائلی سردار ہوں یا مڈل کلاس۔ لیکن اب لوگوں کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ بدامنی پھیلانے والے اور آزادی کا نام لیکر تباہی مچانے والے بلوچ عوام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ کوئٹہ سے لیکر گوادر تک اب کوئی شخص ایسا نہیں جو اخترندیم یا حیربیار مری کے قبیل کی لوگوں کو اپنا رہنما مان لے یا آزادی کے نام پر ہونے والی قتلوں کی حمایت کرے۔ ہر شخص امن و سکون کے ساتھ رہنا چاہتا ہے لیکن مسلح مذاحمت کاروں نے لوگوں کو ذہنی حوالے پریشان کررکھا ہے۔ لوگوں کو یہ احساس ہے کہ اس ذہنی پریشانی اور بدامنی کی زندگی سے چھٹکارا پانا ہے تو بلوچستان میں امن قائم کرنا ہے۔
دوسری بات موصوف نے یہ کی ہے کہ اس شخص کو نمائندگی کا کوئی حق نہیں جو بلوچستان کی تاریخ سے ناواقف ہو۔ گویا اب بلوچستان سے مفرور شخص دوسرے ممالک میں پناہ لیکر بلوچستان کی قسمت کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ کس کو نمائندگی کا حق ہے یا کس کو نہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا کہ کس شخص کو بلوچستان کی نمائندگی کا حق حاصل ہے اور کس کو نہیں، البتہ 2018کے انتخابات نے یہ بات واضح کی تھی کہ بلوچستان کے عوام مسلح تنظیموں کو یکسر مسترد کرچکی ہے۔ لوگوں کے اس فیصلے کو مدنظر رکھ کر اخترندیم اور باقی تمام وہ لوگ جو بلوچستان سے باہر بیٹھ کر خود کو بلوچستان کے لوگوں کا نمائندہ سمجھنے کی غلط فہمی میں ہیں ان سے عرض ہے کہ وہ اس خیالی دنیا سے نکل آئیں۔ بلوچستان میں اب ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔ بلوچستان میں واقعی شعور آچکا ہے۔