بلوچستان میں غداری اور قوم دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ بانٹ کر مسلح تنظیموں نے تمام سیاسی قوتوں اور مختلف رائے رکھنے والی شخصیات کو دیوار کے ساتھ لگانے کی انتہائی کوشش کی ہے

Loading

تحریر/حلیم بلوچ
بلوچستان میں غداری اور قوم دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹ بانٹ کر مسلح تنظیموں نے تمام سیاسی قوتوں اور مختلف رائے رکھنے والی شخصیات کو دیوار کے ساتھ لگانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔ ان کی اس زبردستی کرنے کی پالیسی سے بلوچ معاشرے میں جو تقسیم اور بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کو جوڑنے کے لئے شاید صدیاں لگ جائیں لیکن ان مسلح تنظیموں کے لیڈران کی پالیسی اب بھی وہی ہے۔ اب بھی اپنے مخالفین کو سیاسی اختلافات کی بنیاد پر غدار قرار دینا ان کا پسندیدہ ہتھکنڈہ ہے، تاکہ اس ہتھکنڈے کو استعمال کرکے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ کئی سرکردہ سیاسی رہنماء ان تنظیموں نے انہی الزامات کی بنیاد پر قتل بھی کیے ہیں۔
گزشتہ روز ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک ٹیویٹ میں نیشنل پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک کی ایک تصویر شئیر کرتے ہوئے اس پر الزام لگایا کہ وہ خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ظاہر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں فوج کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں۔ وہ اس بات کو ایسے بیان کررہے ہیں جیسے ڈاکٹر مالک کے تعلقات کسی بیرونی ملک کے فوج سے ہیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ وہ بلوچستان میں رہتے اور سیاست کرتے ہیں یہ بات ظاہر ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی مل سکتے۔ جس تصویر کا حوالہ ڈاکٹر اللہ نزر دے رہے ہیں وہ ڈاکٹر مالک کے بیٹے کی شادی کے موقع پر لی گئی ہے۔ شادی میں میجر ندیم اور کئی دوسرے سینئر سرکاری افسران اور سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی ۔ پاکستان کی فوج کے ایک افیسر کے ساتھ فوٹو کھینچنا بلوچستان کے عوام کے لئے کوئی غداری نہیں لیکن ڈاکٹر اس تصویر کو بطور جواز پیش کررہے ہیں کہ ڈاکٹر مالک بلوچستان میں جاری قتل عام میں ملوث ہے۔ کوئی ڈاکٹر اللہ نزر سے پوچھے کہ اس کی تنظیم نے بلوچستان میں کون سے گل کھلائے ہیں۔ مکران تا جھالاوان کے لوگوں کو آزادی کے نام پر اس کی تنظیم نے کس اذیت سے دوچار کررکھا ہے۔ کئی خواتین اور بچے بھی اس کی تنظیم نے گھروں میں گھس کر قتل کیے ہیں۔ کئی کم عمر بچے اسی تنظیم نے قتل کئے ہیں اور متعدد کم عمر بچے اسی ڈاکٹر کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مارے بھی گئے ہیں۔ بلوچستان میں اپنے مفادات کے لئے کم عمر بچوں کا استعمال سب سے پہلے انہی تنظیموں نے کیا۔ان تمام جرائم اور مظالم کے باوجود ڈاکٹر اللہ نزر کا دوسروں کو غدار قرار دینا یقینا مضحکہ خیز ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر خود بلوچستان میں قتل عام میں ملوث ایک تنظیم کے سربراہ ہیں، اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسروں پر دہشتگردی کا الزام لگائے یا غداری اور وفاداری کا فیصلہ کرے۔
ان مسلح تنظیموں نے قوم پرستی اور قوم دوستی کا جو معیار مقرر کر رکھا ہے اس کے مطابق صرف وہی بلوچ اس قوم کے ساتھ وفادار ہیں جو ان تنظیموں کی بے لگام بندوق کی حمایت کرتے ہیں، جو کہ اب تعداد میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کے علاوہ جو ہزاروں بلکہ لاکھوں بلوچ جو زندگی کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ ہیں، وہ ان تنظیموں کی مقرر کردہ معیار پر پورا نہ اترتے ہوئے غدار اور واجب القتل ہیں۔ اس تنگ نظرانہ پالیسی کو آگے لیجانے والے کس صورت میں ایک قوم کے لیڈر ہو سکتے ہیں؟
سوچ میں تنگ نظری اور اعمال میں شدت پسندی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ شدت پسندی سے وابستہ تمام کردار بلوچستان کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ اپنی نفرت اور تنگ نظری کی وجہ سے اس قوم کا جتنا نقصان کرچکے ہیں شاید ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عوام نے ان تنظیموں کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے، لیکن مستقبل ان نام نہاد رہنماؤں کا کڑا احتساب کرے گی جنہوں نے عوام کی جذبات کے ساتھ کھیل کر ان کو آپس میں دست و گریباں کیا اور خود کسی تیسری طاقت کو خوش کرنے کے لئے بلوچستان کے لوگوں کی زندگیاں قربان کیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں