ریاست پاکستان سے بغض رکھنے والے کچھ مٹھی بھر عناصر اور معاندین _ پاکستان نے بلوچستان پر بہت سی دل آزار باتیں لکھی ہیں اور ابھی بھی کچھ عناصر جو بلوچستان اور پاکستان کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے ہیں وہ بدرجہ اتم لکھ بھی رہے ہیں ۔
لیکن بلوچ اب علم و شعور کی منزلیں طے کرچکا ہے ،بلوچ اب کسی بھی لاشعوری اقدام کی حامی نہیں اب بلوچ ان آستین کے سانپوں سے بخوبی شناسائی اور آشنائی رکھتے ہوئے ان سب مضدین کو مسترد کرتا ہے۔
بلوچستان میں ماضی میں جو مٹھی بھر عناصر نے بد امنی اور انتشار کو فروغ دی اب الحمداللہ وہ بلوچ قوم اور سیکورٹی فورسزز کی انتھک محنتوں سے ان کا خاتمہ ہوا ہے یقینا اسکی ناکامی بلوچ قوم میں شعور و آگہائی کی مرہون منت ہے ۔غیر ممالک میں سیاسی پناہ کی آڈ میں بلوچستان میں نجی مقاصد کی خاطر اغیار کے انگلیوں سے ناچ کر یہاں جنت جیسی بلوچستان کے لہو کو خون سے رنگ آلود انہی سیاسی پنڈتوں نے کی جو اب یورپی ممالک میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔
فسادات کے ماسٹر مائنڈ ماما قدیر جو انڈیا سے امداد کی التجا کرکہ بلوچ قوم کی وہ تاریخی اور ہزاروں سال پرانی روایات اور تشخص کہ ( بلوچ سر اٹھا کر جیتا ہے ) کو عالمی سطح پر مسخ کرکے متبادل میں فنڈذ وصول کررہا ہے۔
بھارتی خفیہ ادارے افغانستان کے راستے بلوچستان کے قبائلی علاقوں میں مختلف لسانی ،گروہی اور فرقہ وارانہ تشدد کو فروغ دے کر خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کرنے کی مذموم سازشوں میں مصروف ہیں۔ وہ بلوچستان میں ان نام نہاد آزادی پسند ٹولے کو بے پناہ اسلحہ اور امداد دے کر تخریب کاری کروا رہا ہے مگر ریاستی فورسزز نے بلوچ عوام کے ساتھ مل کر اس کو کافی حد تک ناکام بنا دیا ہے اور انشااللہ آگے بھی ناکام بناتے رہیں گے تاکہ غیر ملکی سازشی قوتیں اور مقامی دہشتگرد عناصر کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور پاکستانی خصوصاً بلوچستان کے عوام غیر ملکی سازشوں سے محفوظ رہیں۔
اس ٹرینڈ کی ناکامی کے بعد اب ہندوستان نے نیا ڈرامہ شروع کر رکھا ہے جس کے دارومدار انتشار پھیلانے کے ماسٹر مائنڈ ماما قدیر ہیں جس کو بھاری ذمہ داری سونپ دی گئی ہے .ماما قدیر اور بانک عوران بلوچ کو باقائدہ ہندوستان نے کچھ نام نہاد چور ٹولوں کی توسط سے یہ ذمہ داری دی ہے کہ بلوچ عورتوں کو کسی نہ کسی طرح ریاست اور رواں حکومت کے خلاف ورغلا کر بغاوت پر مجبور کیا جائے تاکہ عالمی سطح پر پاکستان کی بے حرمتی ہو اسی وجہ سے جہاں کہیں کوئی بھی خواتین کی ریلی یا مظاہرہ ہو وہاں ماما قدیر یا تو خود پہنچ جاتے ہیں یا پھر عوران سمیت کچھ خواتین کو بجھوا کر قوم پرستی کا ڈھنڈھورا پیٹ کر اسے سیاسی رنگ دے کر لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کی زہر اگل کر اسے ریاست کے خلاف راغب کر کے ہندوستان کی وابستہ عزائم پورا کروا کر کیش سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
کچھ نام نہاد لکھاری ، نقاد اور قوم پرست جماعتیں ہندوستانی مداخلت کو رد کر رہے ہیں مگر یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔
ویسے ہماری شک اس وقت حقیقت میں بدل گئی جب ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادیو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ طرح طرح کے روپ میں پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں لیکن بلی تھیلے سے اس وقت باہر آگئی جب مشہور بھارتی نجی ٹی وی پر ایک مشہور ریٹائرڈ فوجی افسر نے سر_ مجلس تسلیم کیا کہ “ہاں ہم بھارتی پاکستان کے لال قلعے پر کھڑے ہوکر بلوچستان بارے اپنے حبث_ وطن کا اظہار کرسکتے ہیں ” جس سے صاف پتہ چل سکتا ہے کہ بھارت کو ماما قدیر جیسے غداروں نے ہی یہ باور کرایا ہیکہ ہم آپ کو راہ ہموار کرکہ دیں گے آپکے خوابوں کی تعبیر ہمارے ذمہ ہے۔ آپ کی دوستی باعث عزت اور آپکی امداد ہماری ہمت اور تحریک کی ایندھن ہے۔ یقینا انڈیا انتشار پھیلا کر بلوچستان کے حصے بخرے کرنے کا خواہش مند اور خواب رکھتی ہے تاکہ سی پیک کو کسی نہ کسی طرح ناکام بنایا جائے ۔
اب میں کہانی کے دوسری پہلو کی طرف آتا ہوں ،بلوچستان میں احساس محرومی کی بات ہمیشہ سامنے لائی جاتی ہے،ہمیشہ اس پر تجزیے،تبصرے اور سیاست ہوتی ہے مگر کھبی بھی اصل حقائق سامنے نہیں لائے جاتے ۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسلہ ہے اسے ہمیشہ ریاست پاکستان نے تسلیم بھی کی ہے اور ترجیحات دینے کی کچھ حد تک کوشش بھی کی ہیں مگر غیر جانبدار مبصرین متفق ہیں کہ اس احساس محرومی کی زمہ دار بلوچستان میں برسر اقتدار پارلیمانی اور سیاسی جماعتیں ہیں ۔
پچھلے 75 سالوں سے بلو چستان میں حکمرانی کرنے والے بلوچ حکمران کیوں اس صوبے کے ساتھ مخلص نہیں رہے، مخلصی سے میرا مراد یہی ہے کہ کیوں یہ منافقت جیسی غلیظ کھیل سے باہر نہیں نکلے۔۔۔۔!!
کیا وفاق نے کبھی صوبے کے رقم ہڑپ کئے ہیں؟؟ کیا وفاق نے کبھی اس پر کٹوتی کی ہیں؟؟ مرکزی حکومت ہر سال صوبائی حکومت کو کھربوں روپے بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقیاتی مد میں دیتا آرہا ہے۔!
پھر کیا وجوہات ہیں کہ ہم پنجاب یا اسٹیبلشمنٹ کو اس کا زمہ دار ٹھہراتے ہیں؟؟
کیا بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ نے کبھی زبردستی سے کوئی پنجابی حکمران یہاں براجمان کی۔۔نہیں ۔۔۔۔۔ اس اسمبلی کی چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر ہمیشہ بلوچ ہی براجمان رہا ہے مگر کیوں ان کو اپنے صوبے کی محرومی یاد نہیں آئی؟ کیوں ان لوگوں نے ترقیاتی مد میں کھربوں روپے ہڑپ کرکہ عام عوام کے کانوں میں یہ سرگوشیاں کی کہ پنجاب ہمارا حق کھا رہا ہے ،یہی منافقانہ کھیل کھیل کر لوگوں کو ورغلایا گیا ،یہی دو طرفہ گیم نے کچھ لوگوں کو غلط راستوں پر چلنے سے مجبور کیا ۔۔!
اگر بلوچستان پسماندہ ہے ،اگر بلوچستان میں کہیں بے چینی اور بدامنی ہے ،تو میں 100 فیصد ان کرسیوں پر براجمان بلوچ حکمران اور قبائیلی سرداروں کو زمہ وار ٹھہراتا ہوں ۔عجیب ڈرامہ ہے کہ پانچ سال کرسیوں میں بیٹھ کر خاندان سمیت وہ ارب پتی تو بن جاتے ہیں مگر میڈیا میں آ کر عوام کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رکھ رہے ہیں میں وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر اکبر بگٹی،عطااللہ مینگل،غوث بخش بزنجو ،جام غلام قادر،اختر مینگل،جام یوسف،ڈاکٹر مالک،ثنا اللہ زہری اور جام کمال اگر مخلصی سے اپنے علاقوں میں کام کرتے آج بلوچستان اس نہج پہ نہ پہنچتا ،آج ہزاروں وطن کے سپائی ہم سے جدا نہ ہوتے ،کیوں کہ بے روزگاری اور پسماندگی بے چینی کو جنم دیتی ہے اور بے چینی بدامنی کو جنم دیتی ہے ۔کیا یہ غیر ذمہ دارانہ اور منافقانہ پالیسی نہیں ہے کہ وفاق سے صوبے کی تمام بجٹ ہڑپ کرکہ علاقوں میں یہ سیاسی اور پارلیمانی لیڈران اسلام آباد سے فنڈ نہ ملنے کہ شکایت کرتے ہوئےپڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو ورغلا کر بغاوت پر مجبور کرتے ہیں اب ریاست پاکستان اور صوبے کہ ذمہ داران کو ان پارلیمانی پارٹیوں پر چیک اینڈ بیلینس رکھنا چائیے ،اب اس اقراپروری کا اعتساب ہونا چائیے تاکہ جنت نظیر بلوچستان مزید خون کا گہوارہ نہ بنے ورنہ یہ پارلیمانی پارٹیاں یوں ہی منافقانہ اور دو طرفہ گیم کھیل کر کبھی بھی صوبے کو خوشحال اور امن سے دیکھنا نہیں چاہتے ۔کیونکہ جتنے لوگ آج اگر غلط راستوں میں بٹھک گئے ہیں وہ ان پارلیمانی سیاستدانوں کی غلط پالیسوں اور جابرانہ رویوں کی وجہ سے غلط راستے کی انتخاب کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔!!
اگر ایک گاوں میں پینے کا پانی نہ ہو مگر دوسری طرف وہاں کا پارلیمانی معتبر خاندان سمیت محلوں میں شیخوں کی طرز زندگی بسر کرتا ہو تو وہاں کا ایجوکیٹڈ یوتھ ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔۔۔!! یوتھ کی اس بے چینی کو دور کرنے کےلئے یقینا کرسیوں پر براجمان بلوچ حکمرانوں کو خود کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا ،یوتھ کی اس احساس والی سوچ کو اس پارلیمانی معتبرین کو شائستگی اور محبت کے ساتھ حل کرنا ہوگا تاکہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ بھڑک جائیں،بے چینی اور احساس محرومی کے نیم البدل ترقیاتی کام ہیں منافقانہ سیاست اور دوغلا پن نہیں ۔۔۔۔۔!
غلط ہاتھوں سے میرا مراد یہاں بھارت اور میدان میں موجود ماما قدیر ہیں جو نوجوانوں کو اپنے کیمپ میں مسلح سوچ کی دیمروئی کرنے کیلئے برین واش کرتے ہیں ہمیں ایسے پالیسیز بنانے ہونگے تاکہ ماما قدیرجیسے ہندو اورینٹڈ سوچ رکھنے والے انسان کو اپنے مزموم عزائم کو پورا کرنے کا موقع ملے ہی نہیں کیونکہ بھارت دشمنی میں اندھی ہوچکی ہے عالمی طاقتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ بھارت کے دہشتگردی کی طرف اٹھتے قدموں کو روکے تب ہی دنیا امن کا گیت گا سکے گی وگرنہ بھارت امن کا دشمن تھا امن کا دشمن ہے اور امن کا دشمن رہے گا۔
میں اپنے اس جملے کی وضاعت اس چھوٹے سے واقعے سے کرونگا ۔ہمیں پتا ہیکہ کرونا جیسے عالمی وبا نے تمام دنیا کو منجمد کر رکھا ہے ۔پاکستان بھی اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔لاک ڈاون کی صورت میں HECکی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ تمام یونیورسٹی آن لائن کلاسز کا بندوبست کریں ۔مکران چونکہ مختلف گاوں اور قصبوں ہر مشتمل ہے تو اس اعلان کے بعد وہاں کے طلبا و طالبات میں بے چینی کی لہر پیدا ہوگئی ،وہاں کے کچھ اسٹوڈنٹس نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان لائن کلاسز ہوتے ہیں یہ تو اچھی بات ہے مگر چونکہ ہمارے علاقے میں نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس سے محروم رہیں گے ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ وہ HECسے درخواست کریں گے کہ وہ یا تو دوسرے شہروں میں ہمارے لئے ہاسٹلز کے بندوبست کرے یا پھر ہمیں ہمارے اپنے یونیورسٹی کے ہاسٹلز تک رسائی دی جائے جو کہ مناسب مطالبات تھے اور حل ہی کی طرف جارہے تھے۔ان مطالبات کو منوانے کےلئے ان طلبا وطالبات نے مکران میں ریلیاں نکالی ،مگر مذموم ذہنیت رکھنے والے ماما قدیر بشمول عوران بلوچ نے موقع غنیمت سمجھ کر ان بے چارے دیہاتی طلبا و طالبات کو اپنی پروٹسٹ کو کوئٹہ تک وضع دینے کی ہدایت کی کیونکہ بد امنی کے خواہاں اس طرح کے موقعے کبھی بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مکران کے طلبا و طالبات سنجیدگی سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے تھے ان کو کیا پتا تھا کہ ماما کے ارادے نیک نہیں اور وہ بعد میں اس کے زیرعتاب رہیں گے اور وہ ان احتجاج کو اپنی سیاسی سرگرمی کے طور پر استعمال کرکہ اس کو قوم پرستی کی دلدل میں پھنسا دے گا خیر وہ بے چارے یہاں اس ماما کے کیمپ میں پہنچے تو ماما اپنے چال باز کھلاڑیوں کے ساتھ پہلے سے ہوشیار اور گھات لگا کر بیٹھا ہوا تھا ۔یہیں پر اس نامراد ماما نے اپنا پتا کھیل کر ان مطالبات کو غلط رنگ دلوا کر بچیوں کو پولیس کے ہاتھوں گھسیٹنے پر مجبور کروا کر اپنےلئے راہ ہموار کرنے اور بھارت سے خفیہ طور پر دوستی کا شوشہ رچایا جو کہ یہ ان کی منفی سوچ کی شاخسانہ ہے۔۔مصدقہ ذرائع سے معلومات ہیں کہ بیرون ممالک میں بیٹھے عیاش پرستوں نے ماما کہ توسط سے کچھ خواتین جس میں مہرنگ اور عوران سر فہرست ہیں کو ان بچیوں کو ورغلانے کا ٹاسک دیا گیا تاکہ بلوچ،بلوچستان اور پاکستان کی انٹرنیشنلی جگ ہنسائی ہو اور پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو نقصان پہنچے۔۔
ان قصبوں کے معصوم بچے و بچیوں کے منہ میں ماما قدیر،عوران بلوچ اور مہرنگ بلوچ نے غلط اور تعصبانہ نعرے لگوائے جس سے ان کے اصل مطالبات دب گئے اور روانک نے ایک دوسری شکل اختیار کی ۔ماما قدیر ان طلبا و طالبات کو یہ بتانا بھول گیے کہ مکران میں کیوں انٹرنیت سست ہے یا پھر سرے سے ہی نہیں؟
ماما قدیر کیوں میڈیا میں آ کر یہ نہیں کہتے کہ 2014 میں انٹرنٹ کے فائبر تیزی سے بچھ رہے تھے تاکہ تیز نیٹ کی سہولت ہر شہری کو حاصل ہو مگر ماما کے غنڈوں نے اسے پنجاب کی سازش ڈکلیئر کرکہ تاریں اور مشینیریاں جلا دیں جس سے آج لوگ اس سہولت سے ترس رہے ہیں،خاران میں ماما کے غنڈوں نے موبائیل نیٹ ورک کے ٹاوریں اڑائی جس کی ذمہ داری ماما قدیر کے پارٹی بی ایل ایف نے قبول بھی کی کیوں یہ حقائق ماما قدیر نے میڈیا اور ان طلبا و طالبات کو نہیں بتائی کیوں یہ باتیں شئیر کرنے سے ماما کے سینے میں سانپیں لوٹتی ہیں گذشتہ ایک دہائی کے دوران ان ہی بچوں کے سینکڑوں اساتذہ ماما کی تنطیم بی ایل ایف اور بی ایل نے قتل کیے ہیں جس میں سر فہرست ( پروفیسر عثمان،پروفیسر محمد علی کاکڑ ،پروفیسر سید غلام مصطفی شاہ ،انور بیگ ،خلیل محمد بٹ ،پروفیسر مرزا امانت علی ،پروفیسر جاوید مہر،پرنسپل محمد حسن،پروفیسر غلام سرور ،وزیر تعلیم شفیق احمد خان،پروفیسر خورشید انصاری ،پروفیسر فضل باری ،پروفیسر ناظمہ،زاہد آسکانی اور درجنوں کی تعداد میں ہیں) جب کہ سیکڑوں کی تعداد میں ان ہی تنظیموں کی ڈر اور خوف کی وجہ سے دیگر صوبوں کی جانب منتقل ہوئے ہیں ۔ اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ اور نیٹ نہ ہونے کی اصل حقائق کو سامنے لانے کیلئے کیوں ماما قدیر کی زبان پر تالہ لگا ہو ہے؟؟ بہرکیف، اس ساری کشمکش میں نقصان بلوچستان کے عام عوام کا ہوا۔ماما ان واقعات کو کبھی بھی میڈیا پر نہیں بولیں گے کیونکہ اس سے ماما کے چھپے عزائم پہ پردہ اٹھ جائے گا ۔
حکومت جانتی تھی کہ ان معصوم بچوں کے مطالبات جائز ہیں ان کے یہ یہ شکوئے دور کرنے کےلئے صوبائی حکومت HECکے بالائی حکام سے بات چیت کہ طرف بڑھ رہی تھی تو احتجاج میں شامل کچھ تخریبی ذہنیت رکھنے والے لوگوں نے ان بچوں کو اسمبلی کی طرف بھڑکایا کیونکہ اس احتجاج میں ستر فیصد لوگ طالب علم تھے ہی نہیں بلکہ ماما کے گمنام اور خاموش حمایتی تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ کسی بھی صورت یہ مسلہ حل ہو یا وہ چاہتے تھے کہ یہ طلبا و طالبات گرفتار ہو اور ہمیں سیاست کرنے کا موقع مل جائے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان نن ایجوکیشنل نقاب پروش لوگوں کو آخر اس احتجاج میں شامل کس نے کروایا ؟؟؟ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں!! تمام تعلیم یافتہ طبقہ ان مذموم چالوں سے اب پوری طرح واقف ہے اب ان اوچھے ہتکھنڈوں سے وہ بلوچ قوم کو ماضی کی طرح روڑوں پہ نہیں لا سکتے اب ان کے نجی مقاصد عیاں ہوئے ہیں اب وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔
یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ سیکورٹی فورسز کی زیر نگرانی بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں شاندار تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں تمام ضلعوں میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں بھی بلوچ قوم کے ساتھ محبت و انس اور ان سے بہترین تعاون کی ایک شکل ہے ۔
میں کہتا ہوں بلکہ میں درخواست کرتا ہوں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اب سویلین انتظامیہ کو زور دیں کہ وہ ان غریبوں کے پیسے ان ہی غریبوں پر خرچ کرے وہ ان کو باور کرائے کہ اس ضمن میں وہ اپنے قومی ،معاشرتی اور سیاسی فریضہ زیادہ موثر ڈھنگ سے ادا کریں ،وہ ان پر دباو ڈالیں کی ترقیاتی کاموں میں کوئی کوتائی برداشت نہیں کی جائے گی اب ان پر چیک اینڈ بیلینس اور کھڑی نظر رکھی جائے کیونکہ ناکامی اور ڈلیور نہ کرنے کی صورت میں بلوچستان میں فوج ہی کو برا بھلا کہا جاتا ہے کیوں پھر ان کو فوج ہی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔؟
دوسری بات الیکشن کمیشن جہاں دیگر معاملات میں قانون سازی کرتی ہے، اسے اس حوالے میں بھی قانونی ترامیم کرنی چاہیئے کہ پانچ سال حکومت میں رہنے والی جماعت اگر کم از کم پچاس فیصد اپنے منشور پر عملی اقدامات نہیں اٹھا پاتی، تو اسے اگلے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔اس قانونی ترمیم سے سیاسی نظام کو لوٹا کریسی مافیا سے کچھ حد تک صاف کیا جا سکتا ہے، تاہم جب تک الیکشن کمیشن ایسی ترامیم کو عملی جامہ نہیں پہناتی، تب تک عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے سیاسی منشور پر عمل نہ کرنے والی جماعتوں اور امیدواروں کا احتساب کر سکتی ہیں۔ عوام کو یہ بات معلوم ہونی چاہیئے کہ کسی بھی امیدوار کو ووٹ دیتے وقت شرعاً یہ گواہی دی جاتی ہیں کہ مذکورہ شخص اپنے نظریئے، علم وعمل اور دیانتداری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے۔ عوام کے ووٹ سے جو نمائندہ بلوچستان اسمبلی میں پہنچے گا، وہ امیدوار اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے کام کرے گا، ان کی ذمہ داری ووٹر پر بھی عائد ہوگی۔ ذاتی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے، تو اس کا اثر شخصی اور محدود ہوتا ہے جبکہ قومی اور ملکی معاملات میں پوری قوم اور پورا صوبہ متاثر ہوتا ہے ۔ لہٰذا مذکورہ بالا نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے، نہ صرف بلوچ قوم بلکہ پاکستان بھر میں بسنے والی اقوام اور تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اپنی قومی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیئے، تاکہ ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کا خواب حقیقی معنوں میں پورا ہو سکے۔
کیونکہ پسماندگی کی صورت میں بد امنی پیدا ہوتی ہے اور بدامنی میں نقصان غریب عوام اور ان ہی سیکورٹی فورسز کو ہوگی جو دن رات موت کا سامنا کرکہ ہماری اور اس وطن کے محافظ بنے ہوتے ہیں ۔