بلوچستان مسنگ پرسن کے پیچھے چھپے حقائق ہیں بلوچستان سے حقیقی داستان پر نظر
تحریر اختر بلوچ
مسنگ پرسن کے پیچھے چھپے بھیانک چہروں کا ذکر کرتے ہیں میں ماما قدیر منیر مینگل حمل بلوچ بہاول مینگل بی بی گل بلوچ کریمہ بلوچ فرزانہ مجید لطیف جوہر بلوچ نائلہ قادری (انڈین پیڈ بلوچ )
طارق فتح
سب کا بڑا بدنام زمانہ ماما قدیر بلوچ مسنگ پرسن میں ماما قدیر بلوچ کا بیٹا ریکی بھی شامل ہے جو بی ایل اے کا ملیٹینٹ تھا جو بعد میں مارا گیا
اختر مینگل جس نے 5000 کی مسنگ پرسن کی لسٹ وفاق کے ایوانوں میں تھما دی
اس میں وہ بندہ بھی شامل ہے جو اختر مینگل کا بھائی ہے جو دہشتگرد بی ایل اے کا سہولت کار تھا
یاد رہے کہ
اختر مینگل کا ایک بھائی جاوید مینگل جو لشکر بلوچستان ایک دہشتگرد تنظیم چلا رہا ہے اسکو دبئی میں اختر مینگل ملتا ہے اور یہاں وہی مثال ہوئی ایک مچھی ڈوب رہی تھی میں نے اسے بچا لیا
یہ پالیسی ہے اختر مینگل کی ۔۔۔
مسنگ پرسن کا سب سے بڑا گورو جی ماما قدیر وہ خاموش اور معصوم دہشتگرد ہے جو انڈیا سے اسلحہ مانگتا ہے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے انڈیا کا ساتھ مانگتا ہے
اور پاکستان آ کر ماما قدیر کہتا ہے میں معصوم ہوں تو اتنا ذکر دوں
ماما قدیر کی کارستانیاں کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں اسکی مثال ایک کبوتر کی ہے جو سانپ کو دیکھ کر آنکھیں بند کر دیتا ہے کہ سانپ مجھے نہیں دیکھ رہا لیکن اتنا بتا دوں کہ اب تیری آنکھیں بند ہیں سب کی کھل چکی ہیں
آئیں ذکر کریں
جیسا کہ آپ جانتے ہیں حمل بلوچ کراچی اسٹاک ایکسچینج حملے کا ماسٹر مائنڈ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ وہ گھر والوں کو پتہ نہیں تھا کہ وہ بی ایل اے میں شامل ھو گیا ہے بس اتنا پتہ تھا کہ لا پتہ ھو گیا جب پتہ چلا اور گھر والوں کا رابطہ ہوا تو اسے روکا گیا سلنڈر کر دو خدا کے لئے گھر آ جاؤ تو وہ کال کاٹ دیتا تھا یا بات نہیں کرتا تھا
اب ایسی کئی مائیں بہنیں ہونگی جنکا بیٹا بھائی باپ بلوچ لبریشن آرمی یا دیگر دہشتگرد تنظیموں میں مارا گئے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ھو ڈاکٹر دین محمّد جو کہ اکثر بی ایل ایف کے کمانڈر اللہ نذر بلوچ کے ساتھ دیکھا گیا تھااور اس کے بعد اسکی وہی بیٹی بھی اللہ نذر کے ساتھ پائی گئی
ایک بات یاد رکھو کہ دہشتگرد کا ساتھ دینے والا سہولت کار یا مالی امداد فراہم کرنے والا کبھی معصوم نہیں ھو سکتا اس دہشتگرد کا ساتھ دینے والا اتنا ہی ذمہ دار ہوتا ہے جتنا دہشتگرد کیوں سہولت کار کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں ہوتا کہ جو کاروائی یہ کریں گے اس میں نجانے کتنا بے گناہ افراد مارے جایئں گے
ہاں تو بات چل رہی تھی لا پتہ لوگوں کے گھر والوں کی
جیسا کہ آپ جانتے ہیں اگر جب کسی گھر کا کوئی فرد قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کے گھر والوں کو آپ ان لوگوں کے خلاف برین واش کرو گے اس وقت اسکا ذہین ان باتوں پر پکا ھو جاتا ہے کیوں کہ وہ وقت ایسا ہوتا ہے اسی موقع کا فائدہ یہی مسنگ پرسن گورو ماما قدیر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے
تو اس کے گھر والے مرد میں یا تو کوئی ہتھیآر اٹھا لیتا ہے یا اس کمپین کا حصہ بن جاتا ہے اور اپنی زندگی برباد کر دیتا ہے
ان میں اکثر جو روتی ہوئی آتی ہیں تڑپتی ہوئی ہمارا بھائی لا پتہ ھو گیا
وہ معصوم ہے اسکا کوئی جرم نہیں
تو ایسی ماؤں بہنوں کا کوئی قصور نہیں
اکثر لڑکے بی ایس ہو آزاد میں شمو لیت کے بعد اتنا جذباتی ھو جاتے ہیں اور موقع ملتے ہی ایل اے ایل ایف ایل بی میں شامل ھو جاتے ہیں پیچھے گھر والوں کو بھول جاتے ہیں کہ کیسے پھر انکی یاد میں انکی ماں بیٹی بہن روڈز پر انصاف کی بھیک مانگتی در بدر ھو جائے گی
کیا انکو خیال نہیں تھا اپنی ماں بہن کا
اب دیکھو ان روتی ماؤں بہنوں کا
نجانے کتنا حمل بلوچ جیسے اپنی زندگیاں برباد کر چکے ہیں جنکی مائیں بہنیں کتنا سالوں کے بعد بھی انصاف کی بھیک مانگ رہی ہیں اور انصاف مانگیں تو کس چیز کا ؟؟؟؟
دل رو پڑتا ہے ایسی حالات دیکھ کر کہ کاش انکو اپنے گھر کی فکر ہوتی ؟
آج کا قہ دور نہیں رہا کہ پہاڑوں پر لڑیاں کی جایئں آج جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے وہ پھیلے والے دور تھے جب چند لوگ پہاڑوں پر چڑھ جاتے تھے انکو حکومت بے بس ھو کر آزادی دے دیتی تھی یہ سب 150 سال سے بھی پھیلے کی بات ہے
تو تمام ان بھائیوں سے گزارش ہے جو ان تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے گھر کو برباد کر دیتے ہیں اپنے گھر کا سوچو آپ اپنے گھر والوں کے لئے کتنا قیمتی ھو آپ کے گھر والوں کو آپ کی کتنا ضرورت ہے اسکی قدر سمجھو
اگلی تحریر ان نام نہاد مسنگ پرسن پر ڈرامہ رچانے والے ماما قدیر کے سارے چیلوں کا ذکر کروں گا ان شاء اللہ