مومن پر دنیاوی علوم حاصل کرنے سے پہلے علم دین حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے خالق کو پہچان سکے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا ہے۔ خلافت کے جلیل القدر منصب کے فرائض کماحقہ انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو نہ صرف قوت گویائی بخشی بلکہ شکل و صورت اور دماغی صلاحیت بھی تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ عنایت کی تاکہ وہ دنیا کی دیگر مخلوقات پر حکومت کرسکے لہٰذا انسان میں انسانیت کا احساس بھی ودیعت کیا۔ دراصل انسانیت ہی انسان کی پہچان ہے۔ اگر غور کریں تو انسانیت علم، عمل، اخلاص اور فکر آخرت پر مشتمل ہے۔
علم
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جابجا مومن کو علم حاصل کرنے کی تاکید فرمائی ہے اورفرمایا: ’’علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ‘‘ نیز فرمایا: ’’جو شخص اپنے رب سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘ نیز فرمایا ’’علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔‘‘ یعنی علم حاصل کرنے کے لئے مشقت اٹھاؤ چاہے دوردراز ممالک کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اللہ کی تخلیق کردہ کائنات، کرۂ ارض اور اس پر پھیلی ہوئی یا اس کے اندر کی چھپی ہوئی چیزوں کو دیکھے، تلاش کرے اور ان کی افادیت پر غور کرے۔ ایسے ہی مشقت کرنے والے عالموں نے دنیا کو آج بامِ عروج پر پہنچا یا ہے لیکن مومن پر دنیاوی علوم حاصل کرنے سے پہلے علم دین حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے خالق اور اپنے رب کو پہچان سکے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستہ پر چل کر صحیح معنیٰ میں انسان بن سکے یعنی اپنے خالق کو دل و جان سے ایک جانے اور ادائیگی ٔ نماز و روزہ و زکوٰۃ سے ہرگز غافل نہ ہو، اپنے نفس امّارہ پر ہمیشہ غالب رہے، اعلیٰ اخلاق کا حامل بنے یعنی نرم خوئی، احسان، عفو و درگزر اور حسن اخلاق و ایثار کا شیوہ اختیارکرکے انسانیت کا حق ادا کرے۔ اس کے علاوہ دُنیاوی علوم بھی حاصل کرنے کی غرض و غایت اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانا ہو نہ کہ تخریب کاری۔ نیز علم حاصل کرنے کا مقصد اپنی ذاتی عزت و شہرت اور دولت کمانا نہ ہو بلکہ اپنے علم سے انسان اپنے اخلاق درست کرے اور اشاعت علم اور اصلاح و دعوت کو اپنا نصب العین بنائے۔
عمل
علم انسان کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر علم و عمل لازم و ملزوم ہیں۔قرآن حکیم میں بہت سی جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، ان کے لئے دین و دنیا میں فلاح ہے۔‘‘ عمل ایک ایسا وسیع مضمون ہے جس میں تمام اخلاقیات مضمر ہیں ۔ عالم نیک و بد اعمال کے نتائج اور اجر و ثواب جانتا ہے۔ اگر پھر بھی وہ عمل نہ کرے تو عالم کا علم اس کی ذات کے لئے نہ دنیا میں کسی منفعت کا باعث بن سکتا ہے نہ دین کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
کم علم اور بھولے بھالے لوگ جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اچھے اخلاق رکھتے ہیں، دوسروں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں، محنت و مزدوری کرتے ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں، وہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور قیامت کے دن آسانی سے جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ دراصل علم و عمل وہ کیمیا ہے جس سے انسان کا دل و دماغ آئینہ کی طرح صاف و شفاف ہوجاتا ہے جس میں اپنے اور دوسروں کے نیک و بداعمال صاف نظر آنے لگتے ہیں۔ عالم خود اپنا محاسب بن جاتا ہے، اس کی شخصیت نکھر کر مثالی بن جاتی ہے، اس کی زبان میں اللہ تعالیٰ اثر پیدا کردیتا ہے اور اس کا علم اس کی ذات اور دوسروں کے لئے نفع بخش ہوجاتا ہے۔
اخلاص
اخلاص کے ساتھ جو عمل بھی کیا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں ضرور قبول ہوتا ہے۔ اس لئے احکامِ ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘
فکر ِ آخرت
دُنیا کی اس قلیل المدت زندگی میں انسان جو نیک و بد اعمال کرتا ہے یا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اس کا علم اللہ کو تو ہوتا ہی ہے، لوح محفوظ میں بھی یہ محفوظ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے کراماً کاتبین مقرر کئے ہیں جو انسان کے اعمال کم و کاست ایک رجسٹر میں لکھتے ہیں۔ قیامت کے دن انسان کے اعضاء بھی بولیں گے اور گواہی دیں گے جو کام اس نے ان اعضاء سے دُنیا میں کئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ زمین میں بھی من و عن تحریر کی طرح جمع رہیں گے۔
سورۂ زلزال میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن زمین انسان کے اعمال اگل دے گی اور گواہی دے گی ہر اس عمل پر جو انسان نے کھلم کھلا یا پوشیدہ کئے تھے۔ وہ منظر کیسا شرمناک ہوگا جب انسان اپنے پوشیدہ اور اعلانیہ کئے گئے اعمال بد کے اشتہار پر پوری دنیا کے لوگوں کے سامنے اور اللہ اور فرشتوں کےسامنے ذلیل و خوار ہوجائے گا۔ سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’وہ، یعنی اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانتوں اور (ان نیتوں اور ارادوں کو) جو تمہارے سینوں میںچھپے ہوئے ہیں۔‘‘
سورہ لقمان میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا ’’اے بیٹے کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی اور کسی چٹان میں یا آسمان میں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا۔ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے، اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر، اور اپنی آواز کو کچھ پست رکھا کر، بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے (یعنی بات چیت میں نرمی اور شائستگی قائم رکھ)۔‘‘
حدیث شریف میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا: عقلمنداور عاقبت اندیش ہے وہ شخص جو اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے اور ایسے اعمال کرے جو مرنے کے بعد کام آنے والے ہیں