بلوچستان کی تعلیمی درسگائیں طلبا تنظیموں کی بیھٹک بنتی رہی ہیں، مختلف تنظیمیں مخلتف منشوروں کے ساتھ اپنی گرفت کو مظبوط کرنے کیلئے یہاں مخلتف پروگرامز کرتے آرہے ہیں مگر ان چند تنظیموں میں سے بی ایس او آزاد ایک مکمل مخلتف ایجنڈے کا مالک رہا ہے۔ بی ایس او آزاد نے خود کو بلوچ طلبا و طالبات کا پاسبان کہہ کر ہر تعلیمی درسگاہ میں جنگی جنونیت کو پرورش دی.ڈاکٹر اللہ نذر سے لے ذاکر مجید ,سنگت ثناہ, بشیر زیب, قیوم بلوچ, کمال بلوچ, سمیع مینگل, شفیع بلوچ, رضا جہانگیر, کمبر چاکر, زاہد کرد, کریمہ بلوچ, الیاس نذر وغیرہ اسی بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے نکل کر پہاڑوں کا رخ کرکے سرگرم دہشت گرد بن گئے جن کے ہاتھ بلوچستان کے عوام کے خون سے رنگین ہوتے رہے. یہی بی ایس او آزاد کے ممبر اللہ نذر کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گرد حملوں کیلئے بھرتی، منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد میں مصروف رہے اور انہی کی وجہ سے بلوچستان علم و قلم سے دور ہو کر انتہا پسندی کی آگ میں جلتا رہا. ان کے سرکلوں سے بہت سے طلبا و طالبات برین واش ہوئے , پڑھائی سے ان کا دھیان ہٹا اور وہ غلط راستوں میں بھٹک گئے جس سے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں بندوق کلچر اور تشدد کا فلسفہ متعارف ہوا .اللہ نذر اور ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت بی ایم سی میں طلبا و طالبات کو عسکری سرکلوں میں بھٹا بھٹا کر ان کے شریروں میں ریاست مخالف خون ڈال کر ان کو عسکریت پسندی پر مائل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کی ایک واضع مثال ڈاکٹر قمبر مبارک ہیں .بلوچستان یونیورسٹی میں صبا دشتہاری انہی گروہوں کے مشن کو اگے بڑھا رہے تھے، وہ تو باقائدہ یہی کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ قلم کے راستے کو ترک کر کے بندوق کلچر سے دوستی کریں، آپ اندازہ لگائیں ایک استاد ایک طلبا تنظیم کے سرکلز میں کیسے اس طرح بول سکتا ہے مگر بی ایس او آزاد کی مرکزی قیادت نے اسے اجازت اور خفیہ ٹاسک دے رکھا تھا تاکہ وہ طلبا و طالبات کو سر عام بھٹکا کر تشدد کی راہ پر لے آئیں جس سے قمبر چاکر, رضا جہانگیر, الیاس نذر سمیت سینکڑوں طلبا مسلح راہوں میں ضائع ہوگئے .کریمہ بلوچ جو سائیکالوجی کی سٹوڈنٹ تھی مگر پڑھائی کو ترک کر کے اس نے بھی ایک ایسی بدنام زمانہ تنظیم بی ایس او آزاد کو جوائن کیا جو 1975 سے ہی علیدگی پسندوں کے زیر استعمال رہی. بانک کریمہ اس سٹوڈنٹ تنظیم سے باقائدہ پہاڑوں پر جانے کےلئے طلبا کی ریکروٹمنٹ کرتی رہی۔ میں کوئی ہوائی بات نہیں کررہا بلکہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بی ایس او آزاد مسلح جدوجہد میں افرادی قوت کا کردار نبھاتا آرہا ہے اس بات کا اعتراف باقائدہ بی ایل اے کا سابق نمائندہ ڈاکٹر جمعہ مری اپنے کنفیشنل بیان میں کرچکا ہے جب اس نے ہتھیار چھوڑ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا.قتل و غارت میں محو اس تنظیم کے شواہد پر عالمی امن تنظمیوں کی طرف سے بی ایس او آزاد کالعدم قرار دی گئی اسی وجہ سے بلوچستان کے تعلیمی ادارے لمبی تاخیر کے بعد بمشکل دوبارہ آباد ہونے لگے مگر اب دشمن قوتوں کی طرف سے بی ایس او آزاد کو نئے نام BSAC کے ساتھ لانچ کیا گیا ہے .وہی سوچ وہی فکر وہی فلسفہ تشدد پر یقین رکھنے والے ڈاکٹرائین(doctrine) کے ساتھ ایک بار پھر تعلیمی درسگاہوں میں اس کو متعارف کیا جارہا ہے .جس طرح بی ایس او آزاد کو پردے میں تھنک ٹینک چلا رہے تھے بالکل وہی تھنک ٹینک بساک کو چلانے کے بھی خواہش مند ہیں .بساک کے کونسل سیشن میں علی تالپور ,حنیف دلمراد, وہاب بلوچ اور دیگر کو مدعو کیا گیا، اس ریاست مخالف ٹولے کے کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ وہ کس طرح اس جعلی موومنٹ کی اکثر و بیشتر رہنمائی کرتے رہے، سہولت کار بنتے رہے، ان کےلیے توار، سگار، زرمبش اور دیگر فورم میں لکھتے رہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں. یہ وہی حنیف دلمراد , تالپور اور وھاب ہیں جنہوں نے اللہ نزر کو بی این ایم اور بی ایس او آزاد کے کچھ عہدیداروں اور سینئر دوستوں کے ذریعے غلام محمد کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کروایا، غلام محمد بی این ایم کے سپریم کونسل کا ممبر بھی تھا اس کے خلاف ساجد حسین ,حنیف دلمراد اور تالپور نے آرٹیکل لکھ لکھ کر اسکی کردار کشی کی یہ آرٹیکل باقائدہ روزنامہ توار میں شائع ہوتے تھے، کہنے کا مطلب یہ ہیکہ یہ وہی ٹولہ ہے جس نے اس وقت غلام محمد اور اللہ نذر کو لڑا کر کشت و خون کا بازار گرم کروایا تھا.اللہ اللہ کرکہ تعلیمی ادارے ان مسلح جتوں سے پاک ہوئے, تعلمی سرگرمیاں بحال ہوئیں, غریب بچے انہی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر سی ایس ایس آفیسر بن گئے, چرواہوں کے بچےانجنیئر اور ڈاکٹر بن گئے ,لوگوں میں شعور و آگہی بیدار ہوئی , نئی نسل ان گروہوں کو برا بھلا کہنے لگا جن کی وجہ سے علاقے ویران تعلیمی ادارے مسلح مائنڈ سیٹ کی پرورش گاہیں بنی ہوئی تھیں مگر امن دشمن, تعلیم دشمن, بلوچ دشمن اور پاکستان دشمن قوتوں کو یہ چیز ہضم نہیں ہورہی اس لئے وہ پرانی پروڈکٹ کو نئی پیکنگ کے ساتھ مارکیٹ میں لانے جارہے ہیں . بی ایس او آزاد ایک تو مسلح اور انتہا پسندی کی وجہ سے کالعدم قرار دی گئی اور دوسری طرف ان کے بیرون ملک آقاوں کی وجہ سے ان کے راز افشاں ہوگئے ,ان مداریوں پر طلبا و طالبات کا بھروسہ اور اعتماد اٹھ گیا .مگر اس گروہ (BSO Azad) نے پرانے پاپیوں کے حکمت عملی پر بی ایس او آزاد کی نئی شکل BSAC کے نام سے متعارف کی۔ نام سے اس تنظیم کا بنیادی اور ظاہری نعرہ بلوچ کو تعلیم کے راہ پر گامزن کرنا ہے مگر جس طرح بی ایس او آزاد کو اللہ نذر نے کبھی بھی پرو ایجوکیشنل تنطیم بننے نہیں دیا, اسی طرح بساک کو منظم کرنے کے بعد اللہ نذر اور کمپنی اس کو ہائی جیک کریں گے معصوم طلبا و طالبات کو تشدد اور مسلح مقاصد کےلئے استعمال کریں گے .بساک(Baloch Student Action Committee ) جس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلح لکچرز کے سرکل منعقد کررہی ہے جس طرح وہ لیاری کے ہوٹلوں میں بیٹھ کر حکمت عملی بنا رہے ہیں اگر یہ رجحان بتدریج اسی طرح فروغ پاتا گیا تو یہ ریاست، والدین, تعلیمی اداروں اور معاشرے کےلئے ایک نیا بی ایس او آزاد والی پیچیدگیاں پیدا کر سکے گا اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے حکومت، والدین اور وائس چانسلرز کو چائیے کہ تعلیمی اداروں میں بساک کے اغراض و مقاصد اور ان کے ایکٹیوٹیس پر کھڑی نظر رکھیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک نیا قمبر مبارک, ذاکر مجید, زاہد کرد یا کریمہ یہاں سے پہاڑوں کا رخ کرے .سوال یہ جنم لیتا ہیکہ کالعدم سوچ کی ترویج کرنے والا تالپور سیشن میں کس نیت سے مدعو تھا؟ منفی رجحانات کی پیروی کرنے والا بلوچ موومنٹ کا وہاب بلوچ اس ایجوکیشنل تنظیم کے سیشن میں کیا کررہے تھے ؟ حنیف دلمراد جو توار اور سگار کے مشہور لکھاری تھے جن کے قلم سے ماضی بعید میں ریاست کے خلاف بہت سیائی ضائع ہوئی وہ وہاں کیا کررہے تھے؟ میرے تجزیے کے مطابق ان کو اسٹیج پر مدعو کرکے سرعام یہی تاثر دیا گیا کہ قوم کو ایک نیا بی ایس او آزاد مبارک ہو .وہ والدین سے جو محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو یونیورسٹی اور کالجوں میں بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں کچھ بن پائیں، ان سے دستبندانہ التجا ہیکہ اپنے بچوں کو ان منفی فلسفہ رکھنے والے مسلح تنظیموں سے دور رکھیں تاکہ ان کا مستقل داو پر نہ لگ جائے..