…ایک بے بس زندگی

Loading

“رفتہ رفتہ بادبانوں میں ہوا بھرنے لگی اور جہاز کو حرکت ہوئی یہاں تک کہ ساحل پر کھڑے لوگوں کے شور کی آواز اب لہروں کے اٹھتے شور میں تبدیل ہو گیئی….آخر کار عنبرین نے اپنا چہرہ پھیر کر ساحل کی جانب دیکھا اب ساحل کا نام و نشان بھی مٹ گیا تھا اب اس کے دل کی کیفیت یہ تھی کہ جہاز میں کبھی اگلے حصے سے پچھلے حصے پر دوڑتی رہی تیز ہوا سے اس کے بال کھل کر اس کے شانوں پر بکھر گیے تھے—-پھر دھیرے دھیرے میدان پیچھے چھٹ گیے اور دھند میں سب کچھ غائب سا ہو گیا صرف سائیں سائیں کرتی ٹھنڈی ہوا ہی باقی تھی….وہ سارے منظر کو اپنے دل پر تحریر کرنے کی کوشش کر رہی تھی—اُس ادھوری محبت کو مکمل کرنے کی خواہش جس کے خواب عنبرین کے ماں باپ دونوں نے مل کر بُنے تھے مگر جب آنکھیں کھلیں تو خواب کی مانند کانچ کے کھلونے سب کچھ ٹوٹ گیۓ….حسرتیں کھو جاتی ہیں اور یادوں کے سلگتے منظر صرف آنکھوں کو ہی نم نہیں کرتے بلکہ احساس و جزبات کو بھی بھگو جاتے ہیں…عنبرین نہ جانے کب خیالوں کی دنیا میں پہنچ گیی اس کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں بہنے لگیں اس کے چاروں طرف اس بھیانک رات کی یادیں رقصاں تھیں جس رات اس کے والدین اس حادثے کا شکار ہوۓ– جب عنبرین کی دسویں سال گرہ کی خوشی میں گھومنے نکلے اور ان کی کار ایک ٹرک سے ٹکرا جاتی ہے اس حادثے میں عنبرین کے والدین اس دارِ فانی سے کوچ کر گیے اور عنبرین کی اس حادثے میں آواز چلی گیی….وہ کفن میں لپٹا ہوا اس کی ماں کا مقدس وجود اور دوسری طرف بے انتہا محبت کرنے والے باپ کا جنازہ ! وہ منظر وہ رات عنبرین کبھی نہیں بھول سکتی—-اور شاید ان دونوں جنازوں کے بیچ میں وہ اس وقت بھی کھڑی تھی اور آج بھی کھڑی ہے، اس وقت بھی تڑپ رہی تھی آج بھی تڑپ رہی ہے کئی صدیوں کی تھکن اس کے وجود کے اندر سما گیی—– لیکن پھر بھی ہر ایک کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خدا کی ذات بڑی بے نیاز ہے وہ اگر ہم سے جینے کے سہارے چھینتا ہے تو وہ زندہ رہنے کے وسیلے بھی پیدا کرتا ہے اسی لیۓ اس خدا نے اگر اس کے والدین کو اپنے پاس بلایا تو تاریک رات میں زندگی کی ایک چھوٹی سی کرن کو عنبرین کے لیے بچا لیا—-عنبرین کے چچا اور چچی دبئی میں رہتے تھے بھائی صاحب کی اچانک خبرِ مرگ سن کر انھوں نے انڑیا آنے کا فیصلہ کیا اور آج اپنے ساتھ عنبرین کو لے کر جا رہے ہیں–عنبرین اپنے والدین اور پھر اپنے ملک کے چھوڑنے پر بہت غمگین تھی کیونکہ اب نگاہوں میں جدائی کے تمام سماں بندھنے لگے تھے اور اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا اس بھری دنیا میں اس کے چچا جان اور چچی جان کے علاوہ کوئی نہیں تھا…..عنبرین دبئی آچکی تھی اس کے دل میں اپنی چچی جان کی محبت اور عزت کا پودا پروان چڑھنے لگا محبت کا ننھا پودا جب اگتا ہے تو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب یہ ایک مصْبوط درخت بن کر سامنے آتا ہے لیکن عنبرین ہرے بھرے درخت کو جس نے ابھی بہار کا موسم بھی نہ دیکھا تھا جڑ سے کاٹ دیا گیا اور عنبرین پر ظلم و ستم شروع ہو گیۓ…..اب وہ اپنی چچی جان سے بہت ڈرنے لگی اور اپنے کمرے میں قید رہتی… اس کے cousin اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے اسے سب گونگی کہ کر پکارتے… عنبرین جب ان سب کو اسکول جاتے دیکھتی تو اس کے دل میں بھی خواہش جاگتی وہ سب کے ساتھ رہ کر بھی بہت اکیلی اور غم زدہ رہتی وہ اپنے والدین کی تصویر سامنے رکھ کر بہت روتی اور ان سے اپنے دل کی کیفیت بیان کرتی..

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں