انسانی شعور کیلئے تعلیم کی اہمیت و افادیت

Loading

آج کا زمانہ دُنیا میں ترقّی یافتہ زمانے سے مشہور ہے، زندگی کے ہر گوشہ، ہر پہلو میں نئی نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں، ان ایجادات اور انکشافات کے سامنے انسانی عقل و فہم حیران ہے، موجودہ زمانے میں ذرائع ابلاغ اور وسائل حمل و نقل نے ترقّی کر کے برسوں اور مہینوں کے کام دنوں اور گھنٹوں میں ممکن بنا دیئے ہیں۔ اسی طرح پہلے کے مقابلے میں مال و دولت کی کمی بھی باقی نہیں رہی، زمین نے سونا اُگلنا شروع کیا ہوا ہے، سمندروں نے اپنی تہوں سے ہیرے موتی اور جواہرات انسانی دسترس میں پہنچا دیئے ہیں لیکن ان سب کچھ کے ہونے کے باوجود آج بھی انسانی معاشرہ سے سکون و طمانیت کوسوں دُور ہیں۔ ہر طرف ظلم و ستم کے نئے نئے واقعات اور مثالیں رقم ہو رہی ہیں نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں، خودغرضی عام ہے۔ الغرض کی ایسی بُرائی ہے جس کا تصوّر کیا جائے اور وہ معاشرہ میں موجود نہ ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تدبیروں، ان اُصولوں، ان ہدایات کو اپنایا جائے جو رسول اکرمﷺ نے تعلیم دیں اور خالق کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا جس نے اندھیری راہوں کو روشن کیا، جس نے انسانیت کو اس کا مقام عطا کیا، اسے شرف و منزلت بخشا، جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنایا۔ چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت انتہائی ضروری ہے اور ویسے بھی تعلیم و تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو ایک دُوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں اگر کسی ایک مؤثر ترین تاریخ ساز عامل کی تلاش کی جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کی جا سکتی ہے کہ اس میں سرفہرست تعلیم آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز سے اسے آراستہ کیا وہ علم تھا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:۔ اور یاد کرو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں کو فرمایا کہ میں زمین میں (اپنا) نائب بنانے والا ہوں۔ القرآن۔

علم ہی انسان کو شرف انسانیت بخشتا ہے۔ علم ہی نے انسان کو مسجود ملائکہ بنایا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:۔ اے نبیﷺ اپنے رَبّ کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا (عالم کو) جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ جس نے قلم کے ذریعے علم عطا کیا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا۔ القرآن۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء علیہم السلام کو جو کام سونپا اس میں تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفس کو مرکزیت حاصل ہے ۔

تعلیم و تربیت بظاہر دو الگ چیزیں ہیں لیکن غور کیا جائے تو تعلیم کا بھی بنیادی مقصد تربیت ہی ہے کیونکہ علم خود کوئی مقصد نہیں بلکہ یہ انسان سازی اور تربیت کی ایک صورت ہے تعلیم و تربیت کی اصطلاح اُردو میں عام استعمال ہے۔ تعلیم کا تعلق علم اور جاننے سے ہے اور تربیت کا تعلق اور علم مکمل کرنے سے ہے۔ جیسے انسان کے خیالات ہوں گے ویسی ہی شخصیت وجود میں آئے گی۔ تربیت سے مراد ہے خمیر سیرت و کردار ہے۔ ذیل میں تعلیم اور تربیت کے مفہوم کی وضاحت کی جاتی ہے۔ تلقین، ہدایت، تربیت، حقیقت شے کا ادراک یقین و معرفت وغیرہ۔ دراصل علم، مہارتوں او ررویوں کو نئی نسل میں منتقل کرنا تعلیم کہلاتا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی اور منظم جہد مسلسل کا نام ہے جس کے ذریعے اطلاعات، تصوّرات، مہارتوں، رویوں یا عادات کی ترسیل و تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہ ایک مقام، ایک ماحول یا ایک فرد کی کوششوں کی بجائے مختلف قسم کے ماحولیات میں اور بہت سے افراد کی کاوشوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ کیونکہ تعلیم وہ اجتماعی عمل ہے جس کے ذریعے معاشرہ و خیر نسلوں کو اسلامی دستور حیات سکھاتا ہے، اسلامی عقائد اور اقدار ان کے اَذہان میں راسخ کرتا ہے اور اسلامی افکار کی روشنی میں آداب زندگی اور اخلاق کی تربیت دیتا ہے۔ تعلیم کی بنیاد تہذیب و ثقافت پر ہوتی ہے اور تعلیم کا مقصد بھی اس تہذیب و ثقافت کا دوام و اصطلاح ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اس کا تعلق بھی اسی تہذیب و ثقافت ہی سے ہوتا ہے گویا تہذیب و ثقافت تعلیم کا مرکز و محور ہوتی ہے۔

تعلیم کی اہمیت: تعلیم ہر زمانے اور معاشرے میں اہم رہی ہے۔ دین اسلام نے بھی تعلیم کی اہمیت کو اُجاگر کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی بلکہ نزول وحی کا پہلا لفظ ہی تعلیم سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ قرآن مجید میں بھی تعلیم و تعلم کا بار ہا ذکر ہوا ہے۔ اس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔

ترجمہ: وہ رحمٰن ہی ہے جس نے قرآن مجید کی تعلیم دی۔ القرآن۔

ترجمہ:۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔ القرآن۔

مندرجہ بالا ارشادات رَبّانی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا معنی سکھلانا اور علم دینا ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ ’’نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کے لیے اس کی مشکلات کی وضاحت کی جائے، اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے، مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کے سامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ لوگوں کے اندر فکر و تدبر کی صلاحیت اور کتاب اللہ پر غور کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار ہو جائے۔ یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزاء میں سے ہیں ۔ اس بناء پر انسانی زندگی کے شعور و سوچ بچار و اعلیٰ ترقّی کے لئے تعلیم کا ہونا انتہائی ضروری تقاضا ہے جب انسان کے پاس علم ہوگا تو وہ اپنی پوشیدہ خوبیوں کو اپنے اندر سے تلاش کر سکتا ہے اور اپنی زندگی کو بامقصد بنانے میں اپنی اور اپنے معاشرے کو بہتر سے بہتر شعور و ترقّی کی منازل طے کر اور کرا سکتا ہے اگر اس کے پاس علم ہی نہیں ہوگا تو وہ اپنی ترقّی و عروج اور قوم کی ترقّی و عروج میں ہرگز کردار ادا نہیں کر سکتا ہے۔ اس لئے جناب اصحاب مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور دیگر اہل علم نے فرمایا ہے کہ ہم نے اپنے علم سے اللہ تعالیٰ کو پہنچانا علم ہی انسانی معراج کا ذریعہ ہے اس کے بغیر ترقّی و اعلیٰ ظرفی و اخلاقی معیار ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں